سرفروش

0

عباس ثاقب
مجھے یقین تھا کہ ہم جیسے ہی پنڈال سے باہرنکلیں گے، طے شدہ منصوبے کے مطابق مہتاب سنگھ ہمیں جیپ کا رخ سڑک کی طرف کرکے چلنے کیلئے بالکل تیار ملے گا۔ جبکہ شیردل سنگھ بھی سونپی گئی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے مستعد ہوگا۔ دراصل ہمیں اندیشہ تھا کہ مٹھو سنگھ کو ٹھکانے لگا کر ہمارے جیپ تک پہنچنے کے دوران اس کے محافظ بھی پنڈال کے عقبی دروازے تک پہنچ جائیں گے۔ شیردل سنگھ اور مہتاب سنگھ کو ان کی جھلک ملتے ہی اندھا دھند گولیاں چلانی تھیں تاکہ وہ عقب سے گولی چلا کر ہمیں نشانہ بنانے میں کامیاب ہونے پائیں۔
میری نظریں بار بار حویلی کے کھلے دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ مٹھوسنگھ کے محافظوں کو اپنی ڈیوٹی سنبھالے کئی منٹ ہوچکے تھے لیکن ان کے مالک کی آمد میں جانے کیوں تاخیر ہورہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر پستول کے دستے کو ٹٹولا۔ میں خوف زدہ تو نہیں تھا، البتہ اس طویل انتظار نے میرے اعصاب ضرور کشیدہ کردیے تھے اور مجھے جھنجھلاہٹ محسوس ہونے لگی تھی۔ یقیناً کچھ ایسی ہی کیفیت سکھبیر سنگھ کی بھی رہی ہوگی۔
بالآخر ساٹھ پینسٹھ سال کا ایک پستہ قد، سیاہ فام شخص ہمیں حویلی کے دروازے سے نکلتا دکھائی دیا۔ اس نے کینوس کا ایک بستہ بغل میں دبا رکھا تھا۔ مجھے مٹھوسنگھ کے جو کوائف بتائے گئے تھے، ان کی روشنی میں یہ نووارد شخص مٹھو سنگھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اپنے اندازے کی تصدیق کیلئے میں نے سکھبیر کی طرف دیکھا۔ اس نے آنکھ کے اشارے سے مجھے پرسکون رہنے کو کہا۔ وہ شخص مٹھوسنگھ نہ سہی، اس کاکوئی معتمد ضرورتھا کیوں کہ اسے دیکھتے ہی دونوں سنتری اور شاٹ گن بردار ذاتی محافظ مستعد ہوگئے تھے۔ میں نے دیکھا شاٹ گن بردار اب حویلی کے دروازے کی طرف جارہا ہے۔ پھر وہ پنڈال کے عقبی دروازے کے پاس اٹیشن کھڑا ہوگیا۔
چند منٹ بعد میں نے مٹھو سنگھ کو حویلی سے برآمد ہوتے دیکھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی ہجوم میں ہلچل سی مچی۔ وہ لگ بھگ ویسا ہی تھا، جیسے مجھے بتایا گیا تھا۔ پینتالیس اور پچاس سال کے درمیان عمر، گندمی رنگت، تیکھے نقوش والا گولائی مائل چہرہ، آنکھوں پر سنہری عینک، نفاست سے ترشی ہوئی مونچھیں، دہرے استرے سے کی گئی شیو۔ اس نے پنڈت ڈیزائن کی پنڈت جواہر لال نہرو سے منسوب گہرے سرمئی رنگ کی واسکٹ پہن رکھی تھی جس کی سامنے کی بائیں اوپری جیب سے سرخ ریشمی رومال جھانک رہا تھا۔ البتہ نہرو اسٹائل تنگ پاجامے کے بجائے اس نے واسکٹ والے کپڑے ہی کا پتلون نما پاجاما پہن رکھا تھا۔ اس کے بالوں میں ابھی تک سفیدی غلبہ نہیں پاسکی تھی البتہ وہ پیشانی سے کافی پیچھے کھسک چکے تھے۔
مٹھو سنگھ نے پنڈال میں قدم رکھنے کے بعد سامنے بیٹھے سائلوں کے ہجوم کا جائزہ لیا۔ اگر اسے ذرابھی شبہ ہوتا کہ ان میں اس کی جان لینے پر تلے دو افراد مسلح افراد گھات لگائے بیٹھے ہیں تو فخر کی بجائے اس کی آنکھوں میں خوف کی زردی ہوتی۔ وہ نپے تلے قدموں سے اسٹیج پر رکھی میز کے عقب میں بچھی کرسی کی طرف بڑھا۔ اس کا معتمد، غالباً اس کا منیم (منشی) اس دوران کینوس کا بستہ میز پر رکھ چکا تھا اور خود بھی مودب انداز میں کرسی سے لگ بھگ جُڑ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
میرا پستول آگ اگلنے کیلئے بالکل تیار تھا، بس میں گولی چلانے کیلئے مناسب ترین موقع کا انتظار کررہا تھا۔ میں نے سوچا کہ مٹھو سنگھ کو میز کے پیچھے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہی مارگراؤں، لیکن مجھ سے آگے لوگوں کی ایک قطار موجود تھی اور اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے بالکل درست نشانہ لگانا ذرا مشکل تھا۔ جبکہ کھڑے ہونے کے بعد مٹھو سنگھ کو کرسی پر نشانہ بنا نا زیادہ آسان ہوتا، فرار ہونے کیلئے تو بہرحال مجھے اور سکھبیر کو اٹھنا ہی تھا۔ اس لیے میں نے کچھ دیر مزید ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے یقین تھا کہ سکھبیر میری سوچ پڑھ رہا ہوگا۔
مٹھو سنگھ نے اپنی راج کرسی سنبھالنے کے بعد سرگوشی میں اپنے منیم سے کچھ پوچھا، کان میں جواب سن کر اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ منیم نے مجمع کو مخاطب کرکے آواز لگائی ’’کرن سنگھ اور بلوندرگریوال اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوجاؤ اور سردار جی کو بتاؤ کہ تم دونوں نے ان کی ہدایت کے مطابق آپس میں سمجھوتا کیا یا نہیں؟‘‘
منیم کی للکار سنتے ہی میرے اور سکھبیر کے عین سامنے بیٹھے دو ادھیڑ عمر دیہاتی سکھ باری باری اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے نہایت ادب سے مٹھو سنگھ کو ست سری اکال کہا۔ مٹھو سنگھ نے جواب میں صرف ہاتھ اٹھانے پر اکتفا کیا اور گونج دار آواز میں کہا ’’کیوں بھئی کرن سنگھ، تم نے میرے فیصلے کے مطابق اپنے ٹریکٹر کے نیچے آکر مرنے والی بلوندرکی زنانی کے خون کی قیمت کے طور پر فروخت کرنے کیلئے اپنی زمین کا ٹکڑا چُن لیا یا نہیں؟‘‘
کرن سنگھ نے ہاتھ باندھ کر عاجزانہ لہجے میں کہا ’’ممبر سرکار، میری زمین تو پہلے ہی بہت کم ہے، اس میں سے بھی بیچ دی تو میرے گھر والے بھوکے مرجائیں گے۔‘‘
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی مٹھو سنگھ نے گرج کر کہا ’’تم ہوش میں تو ہو کرن سنگھ؟ میرا فیصلہ ماننے سے انکار کررہے ہو؟ تم نے بلوندر کی گھر والی کی ہتھیا کرتے ہوئے یہ سب کیوں نہیں سوچا؟‘‘
کرن سنگھ نے گھگھیائے لہجے میں کہا ’’آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر سرکار، لیکن میں نے بلوندر بھائی کے پیر پکڑکر اسے راضی کرلیا ہے۔ میں اسے اپنی تازہ بیاہی ہوئی بھوری بھینس اور چار سال تک فصل میں سے پانچواں حصہ دوں گا۔‘‘
مٹھوسنگھ نے کھا جانے والی نظروں سے پہلے کرن سنگھ اور پھر بلوندر گریوال کو گھورا اور پھر اپنے منیم کو نظروں ہی نظروں میں کوئی حکم دیا۔ اگلے ہی لمحے منیم اپنے آقا سے بھی زیادہ تحکم بھرے لہجے میں دھاڑا ’’اچھا تو تم ٹٹ پونجیوں کی اب اتنی جرات ہوگئی ہے کہ ممبر جی کے فیصلے پر اپنی مرضی ٹھونسو؟‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More