وجیہ احمدصدیقی
ممکنہ بھارتی جارحیت کے پیش نظر لائن آف کنٹرول پر ہنگامی حالات کا نفاذ کردیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر میں 789 کلومیٹر طویل کنٹرول لائن پر واقع علاقوں میں ہنگامی الرٹ جاری کرتے ہوئے شہریوں کو نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر کے اداروں نے بھارت کی ممکنہ جارحیت کے پیش نظر ایل او سی پر واقع علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔ ہنگامی الرٹ جاری کرتے ہوئے شہریوں کو نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ سول ڈیفنس کے ادارے کو بھی ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کی اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کنٹرول لائن کے ملحقہ اضلاع نیلم، جہلم ویلی، روالاکوٹ، حویلی، کوٹلی اور بھمبر میں کنٹرول لائن پر واقع دیہاتوں کیلئے الرٹ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان علاقوں میں مقیم شہری، بھارت کی ممکنہ شر پسندی سے بچنے کیلئے حکومت کی تجویز کردہ ہدایات پر عمل کریں۔ محفوظ مقامات سے گزرنے والے راستے اختیار کیے جائیں۔ کسی بھی جگہ پر افراد کا ہجوم بننے اور غیر محفوظ راستوں اورسڑکوں پر سے گزرنے سے گریز کریں، خاص طور پر لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی توپوں کی پہنچ میں آنے والی سڑکوں پر سفر کرنے سے گریز کریں۔ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع چراگاہوں میں مویشیوں کو نہ لے جائیں اپنی اور اپنے متعلقین کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ کسی مشتبہ شخص نظر آنے پر فوراً مقامی انتظامیہ کو اطلاع کریں اور لائن آف کنٹرول کے زیادہ قریب والی آبادی میں جہاں بنکرز (حفاظتی خندق) نہیں ہیں وہاں فوری طور پر بنکرز تعمیر کیے جائیں۔ کنٹرول لائن پر رہنے والے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ رات کو غیر ضروری طور پر روشنی کرنے سے گریز کریں۔ حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے یہ ہدایات اس لیے جاری کی گئی ہیں کہ آئے دن بھارتی گولہ باری سے آزاد کشمیر کے شہری شہید اور زخمی ہوتے رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے گولہ باری زیادہ تر کالے، کوٹلی، پونچھ، راولا کوٹ، کھوئی رتہ، سمانی، بھمبر سیکٹرز کے علاوہ نیلم اور لیپہ وادیوں میں کی جاتی ہے۔ ان علاقوں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کیلئے حکومتی تیاریاں مکمل ہیں۔ لیکن لائن آف کنٹرول پر رہنے والی شہری اپنی آبائی زمین چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ ان کو اپنی اس خواہش کی مہنگی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان کا معاشی، جسمانی، سماجی و ثقافتی اور تعلیمی نقصان ہونے کے علاوہ ان پر نفسیاتی دبائو بھی رہتا ہے۔ ریاستی حکومت کے ذرائع کے مطابق 1990ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر میں بیداری اورآزادی کیلئے اٹھنے والی تحریک سے پریشان ہوکر بھارت نے کنٹرول آف لائن پر بھاری گولہ باری کی جس کے نتیجے میں کنٹرول لائن سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ 2016ء نومبر میں بھارتی گولہ باری سے 26 شہری شہید اور 100 زخمی ہوگئے تھے۔ چنانچہ وفاقی حکومت نے یہ منصوبہ بنایا کہ کنٹرول لائن کے قریب دیہاتوں اور آبادیوں کو خالی کرا لیا جائے کیونکہ بھارت کی جانب سے گولہ باری میں شدت آگئی تھی۔ بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر پر دانستہ طور پر شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستانی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے سے حتیٰ الامکان گریز کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق 2016ء سے مئی 2018ء تک کنٹرول لائن پر بھارتی گولہ باری سے 120سے زائد شہری اور67 فوجی شہید ہوئے تھے۔ 30 ستمبر 2018ء کو بھارتی فوج نے ایل او سی کے پونچھ سیکٹر پر وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی تھی۔ لیکن وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہیلی کاپٹر بحفاظت اتر گیا۔ جبکہ اس قسم کی موومنٹ سے بھارتیوں کو قبل از وقت آگاہ کیا جاتا ہے اس کے باوجود یہ واقعہ پیش آیا۔ آزاد کشمیر حکومت کے ذرائع کے مطابق کنٹرول لائن پر گیارہ ہزار پانچ سو گھر بھارتی فوج کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ ان گھروں کے رہائشیوں کیلئے 11500حفاظتی بنکرز تعمیر کئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حفاظتی بنکرزکی تعمیر کیلئے تقریباً 2 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ اس رقم سے کنٹرول لائن پر بسنے والوں کو تعمیراتی سامان مہیا کیا جانے کا منصوبہ ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا تھا کہ بھارت سازش کررہا ہے کہ کنٹرول لائن پر بسنے والے آزادکشمیر کے شہری گھر بار زمین جائیداد چھوڑ کر چلے جائیں جس کے بعد بھارتی فوج کو ایڈونچر کا موقع ملے۔ لیکن آزاد کشمیر کے شہری کنٹرول لائن پر بسنے والے اپنے گھروں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے اور اپنی سر زمین کا دفاع کریں گے۔ ادھر بھارت کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں نے کنٹرول لائن پر بسنے والوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی نیلم میں کنٹرول لائن کے قریب واقع علاقوں کے مکینوں نے ڈپٹی کمشنر وادی نیلم سے وفد کی صورت میں ملاقات کرکے مطالبہ کیا ہے کہ کنٹرول لائن میں جاری کشیدگی کی وجہ سے ان کا کنٹرول لائن پر واقع آبائی علاقوں میں رہنا ممکن نہیں۔ اس لئے حکومت ان لوگوں کو متبادل محفوظ مقامات پر منتقل کرکے معقول گزارہ الاؤنس مہیا کرے۔ کیونکہ غیر یقینی کی صورتحال میں ان کے بچے اور خواتین ذہنی طور پر متاثر ہورہے ہیں اور نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔ وفد کے شرکا نے واضح کیا کہ ہمارے بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں۔ لہذا اس ماحول میں زندگی گزارنا مشکل ہے۔
٭٭٭٭٭