بھارتی ریاست میں انٹرنیشنل فلم فیسٹول پر علیحدگی پسندوں کا حملہ

0

امت رپورٹ
علیحدگی پسندوں اور مقامی عوام نے بھارتی ریاست ارونا چل پردیش کے دارالحکومت ایٹانگر میں انٹرنیشنل فلم فیسٹول پر حملہ کردیا۔ جس کے بعد تین روزہ ایونٹ منسوخ کردیا گیا۔ فیسٹول میں آنے والے درجنوں فنکاروں نے پوری رات ہوٹل اور آڈیٹوریم میں مقید ہوکر گزاری۔ ان کی گاڑیاں، گانے بجانے کا سامان اور تھیٹر سب جلاکر راکھ کردیا گیا۔ حملہ آوروں اور احتجاج کرنے والے مقامی افراد کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو گولی چلانا پڑی۔ جبکہ حالات پر قابو پانے کے لئے فوج طلب کرلی گئی ہے۔ ایٹانگر میں یہ تین روزہ فلم فیسٹول 22فروری سے 24فروری تک چلنا تھا۔ متنازعہ مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ پر پچھلے کافی دنوں سے احتجاج کیا
جارہا تھا، جس کے تحت ارونا چل پردیش اور آسام سمیت دیگر ملحق ریاستوں کے لوگوں کو اپنے علاقے میں داخل ہونے کے لئے بطور شناخت پی آر سی رکھنے کا بل منظور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دہلی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب پلوامہ حملے کو لے کر پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور وزیراعظم مودی پاکستان کو مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں ، ایسے میں ملک کی شمال مشرقی ریاست میں بھڑک جانے والے فسادات نے دہلی حکومت کو پریشان کردیا ہے۔
بھارتی ویب سائٹ دی نیوزمل کے مطابق ارونا چل پردیش کے دارالحکومت ایٹانگر کے آئی جی پارک میں منعقد پہلے ایٹانگر انٹرنیشنل فلم فیسٹول پر نامعلوم افراد نے جمعہ کی رات حملہ کیا۔ مقامی لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ ہفتے کی رات گئے تک جاری تھا۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر مقامی انتظامیہ کو فوج طلب کرنی پڑی۔ یہ ہنگامہ آرائی Permanent Resident Certificate(پی آر سی) کے ایشو پر ہوئی۔
فیسٹول میں شرکت کے لئے بھارت کے مختلف حصوں سے ایٹانگر آنے والے درجنوں فنکاروں کو جان کے لالے پڑگئے۔ ناگا لینڈ کے مقبول گلوکار الوبوناگا کے بقول مشتعل افراد نے اس کی کار سمیت فیسٹول میں شریک تمام لوگوں کی گاڑیوں کو آگ لگاکر راکھ کردیا۔ اپنے فیس بک اکائونٹ پر سارے واقعے کی تفصیل لکھتے ہوئے الوبوناگا نے بتایا کہ ’’مشتعل افراد جب ایونٹ کے مقام آئی جی پارک میں داخل ہوئے تو اس وقت تقریب کا آغاز ہورہا تھا۔ تھیٹر لگ چکا تھا اور مختلف فنکار پرفارمنس کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ مشتعل لوگوں نے ناصرف پارک میں کھڑی گاڑیوں کو آگ لگائی بلکہ سائونڈ سسٹم ، گٹار ، طبلے ، جنریٹر سیٹ سمیت تمام میوزکل آلات اور پورٹیبل مووی تھیٹر کو بھی نذر آتش کردیا۔ فنکار اور انتظامیہ کے لوگ بمشکل جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور انہیں پوری رات اپنے ہوٹل کے کمروں میں مقید ہوکر گزارنی پڑی‘‘۔
اس واقعہ کے بعد سے بالی ووڈ فلمساز ستیش کوشک کے حواس بھی تاحال بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ کوشک نے بتایا کہ احتجاج کی وجہ سے وہ ساری رات اپنے کمرے میں چھپے رہے۔ جبکہ نیشنل ایوارڈ یافتہ ایک اور بالی ووڈ فلمساز اٹپل بورپجاری کا کہنا تھا ’’ ایونٹ میں شرکت کے لئے پچاس کے قریب فلمساز اور فنکار ایٹانگر پہنچے تھے۔ مجھ سمیت متعدد ساری رات آڈیٹوریم میں یرغمال بنے رہے۔ ہمارے لئے یہ بڑے دہشت ناک لمحات تھے ۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ کس طرح کاروں کو پیٹرول بموں کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔ صبح پانچ بجے کے قریب ہم لوگ ڈرتے ڈرتے آڈیٹوریم سے باہر نکلے اور اپنے قریبی ہوٹل میں پہنچ کر جان بچنے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی ‘‘۔
مظاہرین نے ایٹانگر میں گاڑیوں کو آگ لگانے کے علاوہ آل ارونا چل پردیش اسٹوڈنٹس یونین اور آل نشی اسٹوڈنٹس یونین کے تمام دفاتر کو بھی آگ لگادی۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق مشتعل افراد نے اروناچل پردیش سیکریٹریٹ کی مرکزی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔ جبکہ وہاں کھڑی سی آر پی ایف کی بس کو آگ لگادی۔ واضح رہے کہ یہ وہی سی آر پی ایف ہے جس کے اکتالیس اہلکار پلوامہ حملے میں ہلاک ہوئے۔ اخبار کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس اور پیراملٹری فورسز کے اہلکاروں نے شیلنگ کی اور گولیاں بھی چلائیں۔ اس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔ بعدازاں حالات پر قابو پانے کے لئے مقامی انتظامیہ نے فوج طلب کرلی۔ ہفتے کے روز فوج نے متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔ تاہم آخری اطلاعات آنے تک پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری تھا۔ چین کی سرحد کے ساتھ واقع ارونا چل پردیش کی پوری ریاست میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔
دہلی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اروناچل پردیش میں اچانک خراب ہونے والے حالات سے فکر مند ہے اور اس کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ بڑھ گیا تو پاکستان کے ساتھ جاری پلوامہ کے ایشو سے اس کی توجہ ہٹ جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر ارونا چل پردیش کی ریاستی حکومت نے پی آر سی کا متنازعہ بل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ ذرائع کے بقول وزیراعظم نریندر مودی کی ہدایت پر داخلی امور کے بھارتی وزیر کرن رجیجو کی جانب سے ہنگامی طور پر ارونا چل پردیش کے وزیراعلیٰ پیما کھانڈو سے رابطہ کیا گیا۔ بعد ازاں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ارونا چل پردیش کے وزیراعلیٰ نے متنازعہ بل کو اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پیش نہ کرنے کا اعلان کیا ۔ تاہم اس کے باوجود ایٹانگر میں حالات نارمل نہیں ہوسکے تھے ۔ ذرائع کے مطابق یہ حملہ اروناچل پردیش میں علیحدگی کی تحریک چلانے والی نیشنل لبریشن کونسل آف تانی لینڈ کے ارکان نے کیا اور ان کا ساتھ مقامی عوام نے بھی دیا، کیونکہ علیحدگی پسند تنظیم عوام میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔
کشمیر کی طرح اروناچل پردیش کے بعض حصوں پر چین اور بھارت کے درمیان تنازعہ چل رہا ہے۔ 1962ء کی پاک چائنا جنگ ارونا چل پردیش سمیت دیگر شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کی ملکیت پر ہوئی تھی، جس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ چین بالخصوص اروناچل پردیش کے قصبے تاوانگ کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور اسی نسبت سے چین ، اروناچل پردیش کو جنوبی تبت قرار دیتا ہے ۔ 62ء کی جنگ میں چینی فوج بارڈر عبور کرکے اروناچل پردیش میں داخل ہوگئی تھی ، تاہم جنگ بندی کے بعد واپس چلی گئی۔ اروناچل پردیش بھارت کی انیس ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کی سرحد جنوب میں خانہ جنگی کی شکار بھارتی ریاستوں آسام اور ناگالینڈ اور مغربی بارڈر بھوٹان کے ساتھ لگتا ہے۔ ارونا چل پردیش کے مشرق میں برما اور شمال میں چین ہے۔ اپنے لئے علیحدہ ملک کی جدوجہد کرنے والے ارونا چل پردیش کے عوام پر بھارت نے ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں ۔ پچھلی کئی دہائیوں سے مقامی لوگوں کا اغوا اور ماورائے عدالت قتل ریاست میں معمول ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس جبر کے سبب ریاست کے عام عوام بھی مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگرچہ ارونا چل پردیش کی سب سے نمایاں علیحدگی پسند تنظیم نیشنل لبریشن کونسل آف تانی لینڈ ہے، جو آسام اور ارونا چل پردیش کی سرحد پر سرگرم ہے، تاہم ارونا چل پردیش میں مجموعی طور پر 37کے قریب چھوٹی بڑی علیحدگی پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ نیشنل لبریشن کونسل آف تانی لینڈ کے ارکان تانی گروپ کے لوگوں پر مشتمل ہیں جس میں مختلف قبائل شامل ہیں، اور آزاد تانی لینڈ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سترہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل تانی گروپ شمال مشرقی بھارت کا سب سے بڑا نسلی گروپ ہے۔ ارونا چل پردیش میں علیحدگی کی تحریک چلانے والی دیگر تنظیموں میں ارونا چل ڈریگون فورس یا ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ، یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بودولینڈ، یونائیٹڈپیپلز ڈیموکریٹک سولیڈرٹی، کمتاپور لبریشن آرگنائزیشن، بودو لبریشن ٹائیگرز، ڈمز حاکم ڈوگا، کربی نیشنل ولنٹیئرز، رباہ نیشنل سیکورٹی، کوچ راج بونگشی لبریشن آرگنائزیشن، ہمر پیپلز کنونشن ڈیموکریسی، کاربی پیپلز فرنٹ، ٹائیوا نیشنل ریولیشنری فورس، برچا کمانڈو فورس، بنگالی ٹائیگر فورس، ایڈواسی سیکورٹی فورس، آل آسام ایڈواسی سورکھشا سمیٹل، گورکھا ٹائیگر فورس، بارک ویلی یوتھ لبریشن فرنٹ، مسلم یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام، یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف براک ویلی، مسلم یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام، مسلم سیکورٹی کونسل آف آسام، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا آف آسام، اسلامک لبریشن آرمی آف آسام، مسلم ولنٹیرز فورس، مسلم لبریشن آرمی، مسلم سیکورٹی فورسز، اسلامک سیواک سیکورٹی، اسلامک یونائیٹڈ ریفارمیشن آف انڈیا، یونائیٹڈ مسلم لبریشن فرنٹ آف آسام، ریولشنری مسلم کمانڈوز، مسلم ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، ایڈم سینیٹ، حرکت المجاہدین اور حرکت الجہاد شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More