محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان آج (پیر) سے قطر میں فیصلہ کن مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔ مذاکرات ابتدائی طور پر تین دن تک جاری رہیں گے، تاہم ان میں توسیع کا بھی امکان ہے۔ کیونکہ افغان طالبان کے بعض رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نہیں نکالے جا سکے ہیں۔ جبکہ روس نے کہا ہے کہ وہ مذکورہ افغان طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے خارج کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاہم کابل حکومت کا کہنا ہے کہ امریکا اور روس ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کابل حکومت کے کہنے پر ہی سلامتی کونسل نے ان افغان طالبان رہنمائوں کا نام بلیک لسٹ میں ڈالا تھا۔ ان کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کیلئے کابل حکومت کو ہی اقوام متحدہ سے درخواست کرنا پڑے گی۔
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا اہم دور آج پیر سے شروع ہونے والا ہے۔ جس میں افغان طالبان کے وفد کی قیادت مولوی عباس استنکزئی، جبکہ امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد کریں گے۔ افغان طالبان کی جانب سے اپنے پانچ اہم رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی درخواست اور امریکا کی جانب سے اس ضمن میں یقین دہانی کے باوجود اب تک ان طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نہیں نکالے گئے ہیں، جس کی وجہ سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے ان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی تھی اور امریکا نے بھی اس پر غور و خوض کرنے کا یقین دلایا تھا۔ اب انہیں کہا گیا ہے کہ روس کے بغیر یہ نام نہیں نکالے جا سکتے ہیں۔ جبکہ روس اور چین کا کہنا ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں لائی گئی ایسی کسی قرارداد کو ویٹو نہیں کریں گے۔ اس لئے اب امریکا ہی یہ قرارداد پیش کرے گا۔ اگر قرارداد آ گئی تو روس اور چین اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ روس نے امریکا کو پیغام بجھوایا ہے کہ اگر وہ مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہیں تو انہیں ترکی کو نظر انداز نہیں کرنا ہوگا اور ترکی کو بڑا رول دینا پڑے گا۔ کیونکہ افغان طالبان نے مستقبل میں ترکی کے علاوہ کسی بھی ملک کی فوج سے ٹریننگ حاصل کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس لئے مستقبل میں ترکی کو افغان فوج کی تربیت کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ جس پر نہ پاکستان کو اعتراض ہے اور نہ ہی ایرا ن کو کوئی تحفظات ہیں۔ ترکی کے نیٹو ممبر ہونے کے ناطے نیٹو اور امریکا کو بھی ترکی پر اعتراض نہیں ہے۔ روس اور افغان طالبان کے مطالبے پر گزشتہ روز امریکی حکام نے ترکی کے حکام کے ساتھ طویل مذاکرات کئے ہیں۔ جس پر ترک حکام کا کہنا ہے کہ ترک حکومت اس حوالے سے پاکستان اور ایران سے مل کر بات کرے گی اور اس کے بعد ہی اس پر کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے گا۔ جبکہ امریکا نے ترکی کا کردار تسلیم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ دوسری جانب افغان مصالحتی کمیشن کے جنرل سیکریٹری عمر دائودزئی کا کہنا ہے کہ افغان طالبان رہنمائوں کا نام بلیک لسٹ سے امریکا نہیں نکال سکتا۔ یہ قرارداد افغان حکومت کے نمائندے نے پیش کی تھی اور افغان نمائندے کی قرارداد سے ہی یہ کام ہوگا۔ لہذا امریکا اور روس، کابل حکومت کی حمایت سے ہی افغان طالبان رہنمائوں کا نام بلیک لسٹ سے نکال سکتے ہیں۔ عمر دائودزئی کا کہنا ہے کہ افغان صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایک منصوبے پر بھی غور شروع کیا ہے اور اگر طالبان راضی ہوتے ہیں تو اس منصوبے کے تحت طالبان کو اقتدار میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عمر دائودزئی نے اس منصوبے کی مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا ہے۔ ادھر افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں اس بار مشکلات درپیش ہیں۔ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت پر کئے جارہے ہیں کہ امریکا کی جانب سے فضائی حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جبکہ طالبان رہنمائوں کو دنیا سے دور رکھنے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ مذاکرات میں شامل طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ فرانس کی جانب سے بھی ایک دعوت تھی۔ جس میں افغان طالبان نے یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کرنے تھے۔ تاہم امریکا چاہتا ہے کہ پہلے اس کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں اور اس کے بعد طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نام نکالے جائیں۔ ذرائع کے مطابق قطر میں ہونے والے مذاکرات میں بڑے پیمانے پر پیش رفت کا امکان ہے۔ جنگ بندی کا اعلان بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم افغانستان سے انخلا کا ٹائم ٹیبل نہ دینے کی صورت میں جنگ بندی کا اعلان موخر ہو سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی موجودہ ٹیم کو بھی مکمل اختیارات دیئے گئے ہیں اور انہیں جنگ بندی کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی ہے۔ تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر امریکا انخلا کے ٹائم ٹیبل کا باضابطہ اعلان کر دے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تین روزہ مذاکرات میں مزید توسیع اس لئے ہو سکتی ہے کہ ستائیس اور اٹھائیس فروری کو ویتنام میں شمالی کوریا اور امریکا کے صدور کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس لئے امریکی حکام نے افغان طالبان کو بتایا ہے کہ اگر پچیس اور چھبیس فروری کو مذاکرات میں پیش رفت نہ ہو سکی تو مذاکرات کی تاریخوں میں مزید اضافہ کیا جا ئے گا۔ تاکہ جنگ بندی اور انخلا کے معاہدے پر دونوں فریق متفق ہو سکیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کا موقف ہے کہ اگر افغان طالبان اور امریکا مذاکرات میں کسی معاہدے پر متفق ہو گئے تو معاہدے پر دستخط کیلئے افغان طالبان کے اہم رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے خار ج کرائے جائیں گے۔
٭٭٭٭٭