ان کیمرہ اجلاس میں متحدہ رہنما کی شرکت خطرناک ہوسکتی ہے

0

نمائندہ امت
گزشتہ روز (جمعرات کو) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکمل ہم آہنگی نظر آئی۔ وزیر اعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات، مسئلہ کشمیر اور نریندر مودی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ بالکل یکساں اور ایک جیسا تھا۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر توجہ سے سنی۔ ذرائع کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی رہنمائوں نے خطے اور ملکی سلامتی کی صورت حال پر اپنی تقاریر میں مکمل ہم آہنگی کا ثبوت دیا۔ اسپیکر نے اجلاس سے پہلے ’’ن‘‘ لیگ کے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیئے تھے۔ جبکہ اس سے قبل سعد رفیق کی اسمبلی اجلاس میں شرکت کا معاملہ تنازعہ کا سبب بنتا رہا ہے۔ بدھ کو پارلیمانی رہنماؤں کے اِن کیمرہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان شریک نہیں ہوئے تھے۔ آرمی چیف کی موجودگی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے پالیمانی رہنماؤں کو بریفنگ دی تھی۔ وزیراعظم کی عدم موجودگی پر بعض اپوزیشن رہنماؤں کو تحفظات تھے، لیکن پیپلزپارٹی کے سید خورشید احمد شاہ کے علاوہ کسی نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم کی اِن کیمرہ اجلاس میں عدم موجودگی کو محض افسوس ناک قرار دینے پر اکتفا کیا اور کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے اس اہم موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف کا عنصر نمایاں ہو۔ البتہ اس اِن کیمرہ اجلاس میں بعض افراد کی موجودگی پر حیرت کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اِن کیمرہ اجلاس کا عمومی مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ اجلاس میں شریک شخصیات کے سامنے ایسے حقائق رکھے جائیں گے اور ان کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا، جن کا خفیہ رکھا جانا ضروری ہے اور ان فیصلوں کے بارے میں کسی بیرونی ذریعے کو معلوم ہونا قومی مفاد کے منافی ہو سکتا ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں متحدہ کے رکن قومی اسمبلی امین الحق بھی شریک تھے۔ اور یہ بات اب راز نہیں رہی کہ متحدہ کے تمام دھڑوں کے غدار وطن الطاف حسین سے رابطے ہیں۔ لہذا ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی کی اہم میٹنگ میں شرکت سے حساس معلومات لیک بھی ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب حکومت سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا شخص جو ایوان کا رکن ہو اور اسے اس کی پارٹی کسی اہم اجلاس کیلئے نامزد کرے تو اس کو اجلاس میں شریک ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔
’’امت‘‘ نے جب اس سلسلے میں سابق رکن قومی اسمبلی اور ممتاز قانون دان احمد رضا خان قصوری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ریاستی معاملات ذاتی معاملات سے یکسر مختلف اور الگ ہوتے ہیں۔ ریاستی معاملات میں فیصلے اٹل اور قومی مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی شخص کے بارے میں ذرا سا بھی شائبہ ہو کہ وہ قومی مفاد کے منافی قدم اٹھا سکتا ہے تو اسے ایسے معاملات سے دور کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی امین الحق کے بارے میں سوال پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر امین الحق کے لندن ٹولے سے روابط کا کوئی ثبوت ہے تو انہیں اس اجلاس میں شریک ہونے سے روک دینا چاہئے تھا۔ کیونکہ ایسے اجلاسوں میں نہ صرف ایسی معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو خفیہ رکھی جانی چاہئیں۔ بلکہ آئندہ کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے خدوخال پر بھی گفتگو کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی مرضی اور فیصلہ ہوتا ہے کہ اہم اور حساس میٹنگز میں اپوزیشن کے کن افراد کو دعوت دی جائے۔ اگر کسی کا کردار یا اس کے روابط مشکوک ہوں تو حکومت ایسے شخص کو دعوت ہی نہ دے۔ اگر اس کی جماعت اس کو نامزد کرے تب بھی اسے روک دیا جائے۔ کیونکہ سیاسی معاملات سے زیادہ ریاستی معاملات اہم ہوتے ہیں۔ احمد رضا قصوری نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر خطے میں امن کا قیام مشکل ہے۔ پاکستان کی پالیسی ٹھیک ہے۔ لیکن ہر موقع پر امن کی بات کرنا امن کی بھیک مانگنے کے مترادف ہے، جو قومی وقار اور عظمت کے بھی منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باوقار قومیں اپنی عظمت اور وقار کے لئے قربانیاں بھی دیتی ہیں اور خون بھی بہاتی ہے۔ ہمیں بھارت کے مقابلے میں کمزوری نہیں دکھانی چاہئے۔
ذرائع کے مطابق ان کیمرہ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمانی رہنماؤں کو بھارت کے ساتھ کشیدگی کے ایشو پر اپنے بین الاقوامی روابط سے آگاہ کیا اور اس مسئلے کے سیاسی پہلو اور حکومت کی انڈر اسٹینڈنگ سے بھی آگاہ کیا۔ جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے قومی دفاع کے حوالے سے اہم امور پر اجلاس کے شرکا کو اعتماد میں لے کر ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More