محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت کے باوجود دونوں فریقین ابھی تک کسی معاہدے کی تیاری پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب کیوبا کی گوانتانامو جیل میں افغان، پاکستانی اور عرب قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے والے اسکاٹ ملر کی مذاکراتی سیشن میں آمد پر طالبان رہنما مشتعل ہوگئے۔ کئی افغان طالبان رہنما احتجاجاًً اٹھ کر بھی چلے گئے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہفتے کے روز قطر میں دوبارہ شروع ہوئے تھے، جو آج پیر کو بھی جاری رہیں گے۔ مذاکرات میں شامل ذرائع نے بتایا کہ ہفتے کے روز افغان طالبان اور امریکا کے درمیان ورکنگ گروپس کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز پر کام کیا گیا اور امریکا نے ایک بار پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر زور دیا جس کو طالبان نے مسترد کر دیا۔ ادھر پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر عمر ذاخیلوال اور سابق نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی بھی قطر پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے طالبان کے کئی رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات میں امریکی فوج کے انخلا اور افغان سرزمین، امریکا سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کے سمجھوتے کے بعد اس کا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے اور مزید کئی امور پر بھی پیش رفت ہو چکی ہے۔ تاہم امریکا نے اسے میڈیا کے سامنے لانے سے گریز کیا ہے اور افغان طالبان سے بھی کہا ہے کہ وہ میڈیا کے ساتھ مذاکرات شیئر نہ کریں۔ کیونکہ میڈیا کی جانب سے بعض ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جو ان مذاکرات میں زیر بحث نہیں لائی گئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ہفتے اور اتوار کے روز قیدیوں کے تبادلے، امریکی پروفیسرز کی رہائی اور انس حقانی کی رہائی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ جبکہ طالبان کے دیگر رہنمائوں کی رہائی پر بھی بات چیت ہوئی۔ جمعرات اور جمعہ کے روز زلمے خلیل زاد اور قطری حکام کے درمیان بھی ملاقات ہوئی تھی۔ جبکہ ملا برادر اور قطری حکام کے درمیان بھی طویل مذاکرات ہوئے جس میں افغان طالبان نے قطری حکومت کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوران قطری حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ مزید تعاون کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ جبکہ ترکی کا ایک خصوصی پیغام بھی طالبان کو پہنچایاگیا ہے جس میں طالبان کو افغانستان میں تعمیر نو سمیت انہیں ایک سیاسی جماعت کی تشکیل میں مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ اسی دوران افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ اسکاٹ ملر بھی افغان طالبان سے ملنے قطر پہنچے۔ تاہم قطر میں موجود افغان طالبان کے رہنمائوں نور اللہ نوری، ملا خیر اللہ، مولوی فاضل اور ملا ضعیف نے اسکاٹ ملر سے ملنے سے انکار کر دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ طالبان رہنما اسکاٹ ملر سے اس لئے ملنا نہیں چاہتے کہ اسکاٹ ملر گوانتانامو جیل میں کیمپ نمبر پانچ کا انچارج رہا تھا۔ کیمپ نمبر پانچ ان قیدیوں کیلئے مختص تھا جنہیں مختلف طریقوں سے اذیت دی جاتی تھی۔ اسکا ٹ ملر نے افغانوں، عربوں اور پاکستانی شہریوں پر کیمپ نمبر پانچ میں تشدد کے نئے حربے استعمال کئے جس میں قرآن پاک کی بے حرمتی، داڑھی منڈوانا اور گالیاں دینا بھی شامل تھا۔ اس لئے افغان طالبان کسی بھی ایسے شخص سے ملنا نہیں چاہیں گے تو ماضی میں ان کے دینی امور میں گستاخی کر چکا ہو۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات میں کیوبا کے عقوبت خانے میں زندگی گزارنے والے افغان طالبان کے رہنما ملا محمد فاضل، ملا خیراللہ خیرخواہ، ملا نوراللہ اور ملا واثق مذاکرات کے دوران اکثر تلخ ہو جاتے ہیں اور ملا برادر انہیں مسلسل صبر اور حوصلے کی تلقین کرتے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کیوبا کی جیل میں افغانوں اور دیگر قیدیوں پر تشدد کرنے والے اسکاٹ ملر کے مذاکرات میں آنے سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات تقریباً دو روز بڑی حد تک تعطل کا شکار رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسکاٹ ملر کے قطر پہنچنے اور اس کے مذاکرات کے ہال میں داخل ہونے کے بعد کئی طالبان رہنما اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے بات چیت کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان بعض معاملات پر لچک پیدا نہ ہونے کے پیچھے گوانتانامو جیل میں امریکا کی جانب سے بدترین تشدد کا عنصر بھی کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کے اہم رہنما امریکا کو افغانستان میں کوئی بھی ٹھکانہ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ افغان طالبان کے یہ رہنما اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بھی نہیں بھلانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ملا محمد ضعیف انتہائی زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں، جبکہ مولوی فاضل اور مولوی خیر اللہ خیر خواہ بھی اسکاٹ ملر کو دیکھنے پر جذباتی ہو گئے جس کے بعد انہوں نے ملا برادر کے ساتھ ملاقات کی اور وہاں سے واپس چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے ہلمند میں امریکی اڈے پر حملہ روکنے سے انکار کر دیا تھا اور بیالیس گھنٹے تک امریکا کے خلاف طالبان کی لڑائی جاری رہی۔
٭٭٭٭٭