پابندی سے جماعت اسلامی جموں کشمیر مزید مضبوط ہوگی

0

عظمت علی رحمانی
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے رہنمائوں سمیت دیگر سیاسی و سماجی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ بھارت سرکار کی جانب سے پابندی کے بعد جماعت اسلامی جموں کشمیر مزید مضبوط اور عوامی سطح پر مقبول ہوگی۔ واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے 600 اسکول و کالجز اور سینکڑوں مساجد کو تالے لگا دیئے گئے ہیں۔ طلبا و طالبات کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جماعت اسلامی جموں کشمیر سمیت حریت کی ساری جماعتوں نے 1990ء سے اب تک کسی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی صدارت میں جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی کے حوالے سے اہم اجلاس آج منصورہ میں منعقد کیا جائے گا۔
بھارت نے جہاں پاکستان کے ساتھ صورتحال کو کشیدہ رکھا ہوا ہے، وہیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعت کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر 5 سال کیلئے پابندی بھی عائد کر دی ہے۔ بھارت نے جماعت اسلامی پر ملک دشمن اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت پابندی عائد کی ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر ایک آئینی حکومت کو غیر مستحکم کر کے وہاں اسلامی حکومت کے قیام کی خواہاں ہے۔ واضح رہے کہ پابندی سے قبل بھارتی پولیس نے کشمیر میں جماعتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈائون کیا تھا۔ جس میں جماعت اسلامی جموں کشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان زاہد علی اور دیگر عہدیداروں سمیت 200 کے قریب ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر تیسری بار پابندی عائد کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد مقبوضہ کشمیر بھر کی سیاسی جماعتوں، وکلا برادری اور تاجر برادری کی جانب سے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت نے پہلے بھی دوبار جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی، جس کے بعد جماعت اسلامی کو مزید عوامی مقبولیت ملی۔ اب ایک بار پھر یہ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد بھی اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیرکے امیر ڈاکٹر خالد محمود کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر، مقبوضہ کشمیر کی سب سے بڑی نظریاتی تحریک ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس پر پابندی کی اس انداز میں مذمت نہیں کی، جس طرح کرنا چاہئے تھی۔ مسئلہ کشمیرکے حوالے سے پہلی بار پاکستا ن کی کسی حکومت نے جاندار موقف اختیار کیا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی پر پابندی کے حوالے سے ایسا ہی موقف اختیار کرنا چاہئے تھا۔ ہم حکومت پاکستان، او آئی سی اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں سے یہ امید رکھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں فلاح عام ٹرسٹ کے تحت چلنے والے سینکڑوں اسکولوں کے ایک لاکھ سے زائد طلبا و طالبات کیلئے تعلیم کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔ الخدمت پاکستان کی طرح یہ ٹرسٹ بھی فلاحی کام کرتا تھا۔ یہ کام کرکے بھارت نے ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سابق امیر و ممبر کشمیر اسمبلی عبدالرشید ترابی نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت سرکار نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی ہے، جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ ساری دنیا میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ منگل کو آزاد کشمیر اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی جس میں ساری جماعتوں نے اس فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ جموں و کشمیر کے تاجروں نے دو روزہ ہڑتال کی ہے۔ وکلا برادری نے بھی ہڑتال کی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اعلی سطح پر کوئی بات نہیں کی، جس کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ عبدالرشید ترابی کا مزید کہنا تھا کہ آج (بدھ )کو صبح 10 بجے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی صدارت میں منصورہ میں اہم اجلاس ہو گا، جس میں پابندی کے اس فیصلے پر مشاوررت کی جائے گی۔ جماعت اسلامی نے مقبوضہ کشمیر میں 1990ء سے اب تک کسی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا ہے۔ کیونکہ وہاں پر دھاندلی ہوتی ہے، اس لئے کوئی بھی جماعت الیکشن نہیں لڑتی۔ وہاں کے عوام ووٹ کسی اور کو ڈالتے ہیں اور جیتتا کوئی اور ہے۔ بھارت نے ہمارے سینکڑوں کارکان کو گرفتار کیا ہے۔ مدارس و مساجد کو سیل کیا ہے، رہنمائوں کے گھروں کو بھی سیل کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکزی نائب امیر شیخ عقیل الرحمان نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد اس کی قیادت کو گرفتار کرلیا ہے۔ اسکول اور کالجز کو تالے لگا دیئے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے فنڈز کو سیز کردیا گیا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر سے جماعت اسلامی کو دور کیا جاسکے گا، مگر یہ ان کی بھول ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 600 کے قریب اسکول اور کالجز بھی بند کردیئے گئے ہیں، جس سے ہزاروں طلبا و طالبات کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ ان اسکولوں میں بیک وقت دینی اور دنیاوی تعلیم دی جارہی تھی۔ اس کے علاوہ ایک ہزار کے قریب مساجد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ شیخ عقیل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ ہم پوری دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھارت کو اس اقدام سے باز رکھے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بات تو کی ہے، مگر جس طرح زور دار آواز بلند کرنی چاہیئے تھی، وہ نہیں ہوئی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More