مقبوضہ کشمیر میں کامیاب پہیہ جام ہڑتال

0

مرزا عبدالقدوس
مقبوضہ وادی میں مظلوم کشمیریوں کے خلاف کریک ڈائون اور آپریشن کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جس کے دوران مزید دو نوجوان شہید کر دیئے گئے۔ جبکہ گزشتہ روز (منگل کو) سری نگر سمیت مقبوضہ پوری وادی میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے کی منسوخی اور جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف کامیاب ہڑتال ہوئی۔ تمام بازار، مارکیٹیں اور دفاتر بند رہے۔ سڑکوں پر بھی ہو کا عالم رہا۔ اس ہڑتال کی اپیل ٹریڈرز اینڈ مینو فیکچررز ایسوسی ایشن، فیڈریشن آف چیمبر اینڈ کامرس اور ٹرانسپورٹرز کے مشترکہ اتحاد نے دی تھی۔ دوسری جانب قانونی محاذ پر آج انڈین سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں شامل خصوصی حیثیت دینے کے حامل آرٹیکل 35 اے کی سماعت ہو رہی ہے۔ سری نگر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی وکلا پر مشتمل ٹیم صدر میاں عبدالقیوم ایڈووکیٹ کی قیادت میں نئی دہلی میں ہونے والی اس سماعت میں اپنا مؤقف پیش کرے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 35 اے کی منسوخی اور جماعت اسلامی پر عائد پابندی کے خلاف ہڑتال کی کال تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کے مشترکہ اتحاد نے دی تھی۔ جس کے چیئرمین حاجی محمد یاسین خان ہیں۔ جبکہ میر واعظ عمر فاروق سمیت حق خود ارادیت کی حامی پوری کشمیری قیادت نے اس ہڑتال کی حمایت کی۔ جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔ سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ محمد فاروق، محمد اشرف صحرائی، یاسین ملک، انجینئر رشید، سجاد لون اور ممتاز عالم دین آغا سید حسن موسوی سمیت تمام قائدین نے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق گزشتہ روز ایک ہفتے کی نظر بندی کے بعد عوام کے سامنے آئے اور اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیری عوام اور ان کی قیادت 35 اے کے خاتمے یا اس میں تبدیلی کی سازش ناکام بنا دیں گے۔ جماعت اسلامی پر پابندی غیر جمہوری، غیر انسانی اور آمرانہ طرز سیاست اور مداخلت فی الدین کے مترادف ہے۔ ہڑتال کی کال دینے والے اتحاد کے چیئرمین حاجی محمد یاسین کے مطابق بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے پورا کشمیر اور اس کے عوام یکجا اور مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔ کسی کو کشمیریوں کا حق سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے ہڑتال کی کامیابی کو کشمیر کے عوام کے اتحاد اور متحد ہونے کی علامت قرار دیا اور کہا کہ کشمیر میں حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں اور لوگوں کے لئے کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ادھر کشمیر میڈیا سروس کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مقبوضہ کشمیر کے کئی اضلاع میں آپریشن اور گھر گھر تلاشی کا بھارتی فورسز نے سلسلہ جاری رکھا۔ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، لیکن ضلع ترال کے علاقے میر محلہ میں فائرنگ کے نتیجے میں دو نوجوان شہید ہو گئے۔ جنوبی کشمیر کے تین اضلاع شوپیاں، کولگام اور پلوامہ میں جاری آپریشن نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ سری نگر اور دیگر علاقوں پر انڈین جیٹ طیاروں کی پوری رات گھن گرج سے عوام سخت اضطراب کا شکار رہے اور انہوں نے رات جاگ کر گزاری۔ کولگام کے محلہ محمد پور اور محلہ لون میں، جبکہ پلوامہ کے گائوں ملنگ پورہ اور بوگام میں بھی سرچ آپریشن کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ان علاقوں کا کئی گھنٹے تک محاصرہ کر کے گھر گھر تلاشی لی گئی، لیکن بھارتی فورسز کو کوئی کامیابی نہیں ملی۔ نہ ہی کسی کو گرفتار کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ البتہ ان دس بارہ گھنٹوں کے دوران خواتین اور بچے بھی شدید عذاب اور اذیت سے دوچار رہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں انتظامیہ نے اب نئے ایس او پیز جاری کئے ہیں۔ جن کے مطابق فوجی تنصیبات، پولیس اسٹیشنز، فوج اور پولیس افسران کے دفاتر، فورسز کے کیمپوں اور بنکرز کے قریب کوئی گاڑی، یہاں تک کہ موٹر سائیکل کی پارکنگ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ جموں سری نگر شاہراہ پر بھارتی قابض فورسز نے جگہ جگہ بنکرز تعمیر کر رکھے ہیں۔ دو دن قبل ہندواڑہ کے گائوں اشفاق بابا گنڈ میں ہونے والے خونی تصادم میں دو کشمیری نوجوانوں نے پانچ بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کو واصل جہنم کرنے کے بعد شہادت حاصل کی تھی۔ ان میں سے ایک شہید اشفاق مجید میر کی نماز جنازہ گزشتہ روز اس کے گائوں بریٹھ کلاں ضلع سوپور میں چھ مرتبہ ادا کی گئی۔ میڈیا ذرائع کے مطابق علاقے میں کرفیو کے باوجود دور دراز علاقوں سے آنے والے سینکڑوں افراد کی بار بار آمد کا سلسلہ بڑھ جانے کی وجہ سے نماز جنازہ چھ بار ادا کرنا پڑی۔
بھارتی آئین میں 1954ء کے ایک معاہدے کے مطابق جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اور اسے نیم خودمختار ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن موجودہ بھارتی مرکزی حکومت اور اس کے ہمنوا ایک عرصے سے آئین کی وہ شق جس کا نمبر 35 اے ہے، ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اب یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس کی سماعت انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی پر مشتمل تین رکنی بنچ کر رہا ہے۔ کشمیریوں کی نمائندگی سری نگر ہائی کورٹ بار کے وکلا پر مشتمل ایک ٹیم کر رہی ہے۔ آج بدھ سے اس کیس کی ایک بار پھر سماعت شروع ہو رہی ہے۔ سری نگر ہائی کورٹ بار کے صدر میاں عبدالقیوم ایڈووکیٹ، جنرل سیکرٹری محمد اشرف بٹ ایڈووکیٹ، نائب صدر اعجاز بدر ایڈووکیٹ، زیڈ اے شاہ، زیڈ اے قریشی، آر اے جان، منظور احمد جان سمیت دیگر سینئر وکلا پر مشتمل ٹیم نئی دہلی میں اس عدالت کے سامنے آج پیش ہو گی۔ جہاں اس اہم کیس کی سماعت ہے۔ کشمیر کی تمام قیادت جن میں بھارتی آئین کے تحت انتخابی عمل کا حصہ بننے والی سیاسی قیادت بھی شامل ہے، اس شق کو ہر صورت موجود اور برقرار رکھنے کی حامی ہے۔ جبکہ حق خود ارادیت کے حصول تک کشمیری عوام بھی اسے اپنی بقا اور سلامتی کا ضامن سمجھتے ہیں۔
کامیاب ہڑتال پر تاجر رہنمائوں اور سیاسی قیادت نے تمام شعبوں کے متعلقہ افراد اور اداروں کو مبارکباد دی ہے اور اسے کشمیر کی یکجہتی اور جلد کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ظلم و بربریت اب کشمیریوں کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More