اسلام آباد (نمائندہ امت) ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آگاہ کیا ہے کہ پی ٹی وی نے جان بوجھ کر پی ایس ایل سے بزنس حاصل کرنے کا موقع گنوایا اس سے ادارے کو بہت آمدن حاصل ہونا تھی،کمیٹی نے بلوچستان کے سیاسی کارکن ابراہیم لونی کی ہلاکت کامقدمہ درج کرنے کی سفارش کردی ۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت ادارہ برائے پارلیمانی سروسز کے کانفرنس حال میں منعقد ہوا ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ابراہیم ارمان لونی کی احتجاج کے دوران ہلاکت کے علاوہ پی ٹی وی ملازمین کی تنخواہوں اور پیش کی عدم ادائیگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ کمیٹی کو ڈی آئی جی بلوچستان ژوب اورہوم سیکرٹری بلوچستان نے ابراہیم ارمان لونی کی احتجاج کے دوران ہلاکت پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ لورالائی میں دہشتگردی کے ایک ماہ میں پانچ واقعات ہوئے تھے جس پر وہاں دفعہ 144نافذ تھی ،ان لوگوں نےوہاں دھرنا دیا ہوا تھا ، ایک لیڈر کو گرفتار کرنے لگے تو احتجاج کرنے والوں نے روک لیا اُن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، لونی کو مرگی اور دل کا دورہ پڑا جس سے اُس کی ہلاکت ہوئی ۔ابتدائی پوسٹ مارٹم لورالائی سے کرایا بعد میں کوئٹہ سے کرایاگیا اور اُن کے کچھ اعضا پنجاب فارنزک لیبارٹری کو بھیجے گئے ۔ لونی کی ہمشیرہ نے کمیٹی کو بتایا کہ میرے بھائی پر تشد د کیا گیا، تشدد کے بعد ہسپتال لے جانے لگے تو پولیس کی گاڑی کی رکاوٹ کی وجہ سے تاخیر ہوئی ۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ لونی کے دماغ .میں کچھ نشان پوسٹ مارٹم رپورٹ میں آنے کی وجہ سے اعضا ء پنجاب فرنزک کو بھیجے گئے ،سمجھ نہیں آتی ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی گئی ۔ جوڈیشل انکوئری ہونی چاہئے اور دفعہ 144کیوں لگایاگیا اس کی بھی انکوائری ہونی چاہئے ۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ کوئٹہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سر میں زخم آنے سے دماغ میں خون جم گیا جس سے دل سے خون کی سپلائی بھی بند ہو گئی ۔وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کہا کہ گڑبڑ نظر آتی ہے ۔ایف آئی آر کیو ں درج نہیں کی گئی اور پی ٹی ایم کے لوگ جب جنازے پر جا رہے تھے اُن پر فائرنگ کی گئی جو قابل مذمت ہے ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ احتجا ج کرنے والوں کے خلاف کیسز واپس لئے جائیں، پی ٹی ایم کارکنان کی گاڑی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں۔ کمیٹی نے ایف آئی آر درج کرنے اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف انکوائری کی سفارش کردی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا اگر انکوائری رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے کر رپورٹ حاصل کی جا ئے ۔ اجلاس میں پی ٹی وی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی عدم ادائیگی پر احتجاج کا سخت نوٹس لیا گیا ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری ، قائم مقام ایم ڈی ارشد خان ، پی ٹی وی یونین اور احتجاج کرنے والے ملازمین کے نمائندوں سے تفصیلی آگاہی حاصل کی گئی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ٹی وی کا چیئرمین ارشد خان کو لگایا گیا اور پی ٹی وی بورڈ نے اس کو قائم مقام ایم ڈی بنا دیا جنہوں نے بورڈ کے چارٹرآف ڈیمانڈ میں تبدیلیاں کیں، سپریم کورٹ نے چار ماہ قبل فیصلہ دیا تھا کہ ایم ڈی کا تقرر پندرہ دن میں کیا جائے مگر ابھی تک عمل نہیں ہوا ایم ڈی نے پی ٹی وی بورڈ کی مدد سے اپنی تنخواہ 22لاکھ مقرر کروائی جبکہ چھوٹے ملازمین کے میڈیکل کے بل بھی ادا نہیں کئے جا رہے، ایک ملازم کو پندرہ ہزار نہ ملنے پر علاج نہ ہو سکا اور اُس کا انتقال ہو گیا۔کمیٹی کو ایم ڈی پی ٹی وی نے بتایا کہ وہ دو دفعہ پہلے بھی ایم ڈی رہ چکے ہیں وزیر نے خود مجھے ایم ڈی بننے کی پیش کش کی تھی، متعلقہ وزیر نے مجھے بلایا بھی تھا ،میں پی ٹی وی بورڈ کا ڈایکٹر تھا ،ممبران نے مجھے ایم ڈی بنایا ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کا خط آیا کہ بورڈ خود ایم ڈی سے متعلق فیصلہ کرے گا ۔سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی بورڈ سمجھتا ہے کہ وہ خود مختار ہے اور ہر فیصلہ کر سکتا ہے ،جب تک فیصلہ نہیں ہو گا کہ پی ٹی وی کو کون چلائے گا بہتری نہیں آئے گی ۔ چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری اطلاعات کو ہدایت کی کہ وہ ایم ڈی پی ٹی وی اور پی ٹی وی یونین کے نمائندوں سے ادارے کے مسائل حل کے لئے 14دنوں میں رپورٹ دیں ۔