علی مسعود اعظمی
توہم پرست بھارتی وزیر اعظم ’’چمتکاری کرسی‘‘ کے ذریعے الیکشن جیتنے کیلئے پرامید ہیں۔ کانپور میں نریندر مودی کے جاں نثاروں نے الیکشن 2019ء میں کامیابی کیلئے اہم قرار دی جانے والی چمتکاری کرسی کو چوم چاٹ کر اس کی آرتی اُتاری ہے اور لوبان سمیت صندل کے برادے کی دھونی دیکر تلک لگایا ہے۔ لکڑی کی اس کرسی کو جھک کر ’’پرنام‘‘ کرنے کے بعد اس کی حفاظت کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم نریندر مودی کی انتخابی فتح کیلئے ’’بھومی پوجا‘‘ کا بھی خاص طور پر اہتمام کیا گیا تھا۔ اتر پردیش کے شہر کانپور سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کرسی اعلیٰ قسم کی لکڑی سے بنائی گئی اور 2012ء سے سیاسی و انتخابی فتح کیلئے اہم قرار دی جاتی ہے۔ اس چمتکاری کرسی کو وزیراعظم مودی کے گرو، سوامی دیانندا جی نے اپنی زندگی میں خاص طور پر اپنی نگرانی میں تیار کرایا تھا اور یہ کرسی مودی کے حوالے کرنے کے بعد ان کو پابند کیا تھا کہ جب کبھی ان کو مشکلات درپیش ہوں یا الیکشن میں کامیابی حاصل کرنی ہو تو وہ اس کرسی پر بیٹھ جایا کریں اور ان کا بتایا ہوا جاپ کیا کریں تاکہ کامیابی ان کے قدم چومے۔ مودی جی کی اس چمتکاری کرسی کا پہلا استعمال 2014ء کے عام انتخابات میں کیا گیا تھا اور دوسری بار اس کو راجیہ سبھا کے الیکشن میں 2017ء میں استعمال کیا گیا۔ اب 2019ء کے الیکشن میں بھی اس کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ چمتکاری کرسی کو شیشے کے باکس میں رکھ کر کانپور کے اکبر پور انتخابی حلقے میں بھیجا گیا ہے، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنمائوں نے ایک تقریب میں اس کی پوجا کی ہے اور یقین ظاہر کیا ہے کہ وہ اس چمتکاری کرسی کی وجہ سے کانپور، بندیل کھنڈ ریجن کی تمام دس لوک سبھا سیٹیں جیت جائیں گے۔ بی جے پی کانپور کے اہم رہنما سریندر مٹھانی کا کہنا ہے کہ مودی جی نے اس کرسی کو استعمال کرکے اور اپنے دھارمک گرو کا بتایا ہوا جاپ کرکے 2014ء کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی تھی، جس کے بعد ان کا اس کرسی پر ’’اعتقاد‘‘ بیٹھ گیا تھا۔ اب 2019ء کے الیکشن میں بھی سو فیصد یقین ہے کہ چمتکاری کرسی کی وجہ سے مودی جی ایک بار پھر الیکشن جیت جائیں گے۔ قابل اعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ حالیہ ایام میں بھارتی وزیر اعظم مودی کو بہت زیادہ مشکلات پیش آرہی تھیں۔ ان کو رافیل طیاروں کی ڈیل اور بیروز گاری سمیت اپوزیشن کا دبائو جھیلنا پڑ رہا تھا۔ پاک، بھارت جنگی جھڑپوں، دو انڈین طیارو ں کی تباہی، ایک پائلٹ کی گرفتاری اور تین کی ہلاکت کی وجہ سے بھی مودی بیحد پریشان اور گھبراہٹ کا شکار تھے۔ جس پر انہیں ایک دوست نے مشورہ دیا کہ تمام مشکلات سے نجات کیلئے اپنے گرو کی جانب سے تیار کرائی جانے والی ’’چمتکاری کرسی‘‘ استعمال کریں۔ اس مشورے پر نریندر مودی نے دہلی کے وزیراعظم ہائوس میں شیشہ کے باکس میں رکھی کرسی نکلوالی ہے اور وہ اس پر بیٹھ کر انتخابی ریلیوں سے خطاب کریں گے۔ مودی کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ گرو بابا رام دیو کے احکامات پر اس کرسی کی حفاظت کیلئے رہنما ہدایات جاری کی گئی ہیں، جس کے تحت الیکشن مہم میں اس کرسی کو استعمال کرنے کیلئے خصوصی طور پر ایک گارڈ دستے کی موجودگی میں بحفاظت ایک شہر سے دوسرے شہرلایا جارہا ہے، تاکہ نریندر مودی اس چمتکاری کرسی پر بیٹھ کر انتخابی ریلیوں سے خطاب کریں۔ مودی کے گرو کا دعویٰ ہے کہ یہ کرسی مودی کی انتخابی فتح کیلئے بڑی بھاگوان ثابت ہوگی، لیکن اس کو ایسا کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے جس نے اشنان نہ کیا ہوا یا وہ غیر ہندو ہو۔ واضح رہے کہ مودی کی درخواست پر معروف ہندو مذہبی مقام رشی کیش میں مودی کی کامیابی اور دشمنوں کی بربادی کیلئے درجن بھر سے زیادہ ہندو سادھوئوں نے خاص جاپ کئے تھے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مودی کی ریلیوں میں شرکت کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کے دوران اس ’’چمتکاری کرسی‘‘ کو رکھنے کیلئے مخصوص گاڑی تیار کی گئی ہے۔ اس وقت یہ کرسی کانپور میں موجود ہے اور نریندر مودی کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی ہے۔ کانپور میں مقیم بھارتی صحافی، حیدر نقوی نے بتایا ہے کہ 8 مارچ کو کانپور میں انتخابی ریلی کیلئے یہ چمتکاری کرسی خاص انتظامات کے تحت کانپور لائی گئی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے آفس میں رکھی گئی ہے۔ بھارتی نیوز ایجنسیوں نے بھی اس سلسلے میں بتایا ہے کہ کرسی کا چمتکار دکھانے والے بی جے پی کانپور کے صدر مسٹر مٹھانی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ کانپور، بندیل کھنڈ ریجن سے لوک سبھا 10 سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جتوائیں گے اور اس کا بنیادی سبب چمتکاری کرسی ہے۔ مٹھانی کا کہنا ہے کہ انہیں 2014ء کے عام انتخابات اور 2017ء کے ریاستی الیکشن میں اس بات کا ثبوت مل چکا ہے۔ کیونکہ جب بھی اس کرسی پر مودی جی بیٹھتے ہیں یا اس کا ایکشن ریلیوں میں استعمال کرتے ہیں تو وہ فتح سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اسی لئے پارٹی کے دھارمک حلقوں میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ اب بھی مودی کی انتخابی فتح میں یہ کرسی اہم کردار ادا کرے گی۔
٭٭٭٭٭