وجیہ احمد صدیقی
عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ایف سولہ طیاروں کو جنگ میں کسی خاص ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر بھارت کیخلاف فائٹر جیٹ F.16 کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال توJF-17 تھنڈر ہی بھارت پر بھاری ہیں۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایئر وائس مارشل (ر) شہزاد چوہدری نے کہا کہ جنگی حکمت عملی جنگی ماہرین ہی تیار کرتے ہیں۔ وزارت دفاع اور پاک فضائیہ کے افسران ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ کس صورت حال میں کون سا طیارہ استعمال کرنا ہے۔ کیونکہ وہی جانتے ہیں کہ کس طیارے کی جنگی صلاحیت کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا کہ ہم اپنے ایف سولہ طیاروں کو کسی خاص ملک کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔ اس لیے اس معاملے پر زیادہ بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔ جبکہ عسکری تجزیہ نگار سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے وقت ان کے استعمال کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ کیونکہ پاکستان نے نقد رقم دے کر یہ طیارے حاصل کیے ہیں۔ بھارت کی جانب سے یہ کہنا بلاجواز ہے کہ ایف سولہ طیارے ہمیں صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال کے لیے دیئے گئے ہیں۔ ہم انہیں دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے بقیہ ایف سولہ طیارے امریکہ سے مانگے تھے اور کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں ان کی ضرورت ہے اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ طیارے استعمال بھی کیے تھے۔ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ ایف سولہ طیارے پاکستان کے پاس دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے سے پہلے کے ہیں۔ اس لیے ان کے استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا۔ یہ طے شدہ اصول ہے کہ اگر پاکستان کی سا لمیت کو چیلنج کیا گیا تو اپنے وجود کو قائم رکھنے کیلئے ہمارے پاس جو بھی ہتھیار ہیں، انہیں ہم استعمال کریں گے۔ چاہے وہ دہشت گردوں کے حملے ہوں یا غیر ملکی جارحیت۔ اپنے ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کا حق صرف ہمیں ہے، کسی اور ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دہشت گردی کو جواز بناکر جارحیت کا ارتکاب کرے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کو بھارتی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں اپیل کرنا چاہئے کہ وہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرے اور بتائے کہ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں عالمی امن کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب عالمی امن خطرے میں ہو تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 94 کے تحت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو اس ضمن میں اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔
واضح رہے کہ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کا ایف سولہ فائٹر جیٹ مار گرایا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس کی تردید کی کہ بھارتی طیاروں کے خلاف جوابی حملے میں پاکستان نے ایف سولہ طیارے استعمال ہی نہیں کیے۔ تاہم امریکی حکام نے بھارت کی دلجوئی کیلئے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے ایف سولہ طیارہ استعمال ہوا ہے یا نہیں۔ ادھر وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ابھی تک پاکستان سے اس قسم کا کوئی سوال نہیں پوچھا ہے کہ اس نے آزاد کشمیر پر بھارتی طیاروں کے حملے کا جواب دینے کیلئے کون سے طیارے استعمال کیے۔ اس بارے میں عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنا اسلحہ فروخت کرتے وقت ایسی کوئی شرائط عائد نہیں کرتا کہ اسے کہاں استعمال کیا جائے اور کہاں اس کے استعمال پر پابندی ہے۔ لیکن وقت پڑنے پر وہ رخنے ضرور ڈالتا ہے۔ کیونکہ وہ کسی بھی ملک کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ پاکستان کو پہلی بار 1955ء میں فوجی امداد کے نام پر امریکہ سے اسلحے کی تجارت شروع ہوئی، جس میں اضافہ ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں ہوا۔ تاہم 1965ء میں پاک، بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے فوجی امداد میں بڑی کٹوتیاں شروع کردی تھیں۔ یعنی جب وقت پڑا تو یہ امریکی اسلحہ ہمارے کچھ کام نہ آیا۔ اب بھی بھارتی دراندازی کی مذمت کرنے کے بجائے امریکہ نئی دہلی کی پیٹھ تھپک رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں جب بھی زیادہ کشیدگی آتی ہے تو پہلی تلوار پاکستان کو ملنے والی عسکری امداد پر چلتی ہے۔ لیکن اب پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے امریکہ کی فوجی امداد پر انحصار بالکل ختم کردیا ہے۔ کیونکہ امریکہ کی عسکری امداد ہمیشہ پاکستان کی صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کیلئے ہی رہی ہے۔ البتہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے پہلی مرتبہ اس معاملے پر بات چیت کی، جو برطانوی خبر رساں ادارے کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف ایف 16 استعمال ہونے سے متعلق اطلاعات سے آگاہ ہیں اور اس حوالے سے مزید تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ دفاعی اشیا کے غلط استعمال کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے نے لکھا کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاہدوں میں پاکستان کو کیا کرنے سے روکا گیا ہے۔ دوسری جانب ایک خبر یہ بھی تھی امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کون فالکنر نے بھارتی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی معاہدوں میں رازداری کی شرط شامل ہوتی ہے، لہٰذا وہ معاہدوں کی تفصیلات نہیں بتا سکتے۔ فالکنر نے بھی یہ واضح نہیں کیا کہ ایف سولہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی شرط پاک امریکہ معاہدے میں ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭٭