عمران خان
ٹرانس شپمنٹ پرمٹس پر کراچی کی بندرگاہوں سے اندرون ملک ڈرائی پورٹس پر جانے والے سامان میں کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کا انکشاف ہوا ہے، جس میں آٹو پارٹس کی آڑ میں ممنوعہ سامان سیٹیلائٹ ڈش ریسیور، سی سی ٹی وی کیمرے اور فنگر پرنٹس مشینوں کے علاوہ چہرے کی شناخت کرنے والی بائیومیٹرک مشینیں اسمگل کی جارہی تھیں۔ ماڈل کسٹم کلیکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) سیل کے افسران نے الجیران انجینئرنگ اور سیف الرحمن کمپنی کے خلاف تحقیقات کا شروع کردی ہیں۔ دونوں کمپنیوں نے لاہور ڈرائی پورٹ پر تعینات کسٹم افسران کے ساتھ ملی بھگت کر کے ٹیکس چوری اوراسمگلنگ کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں اب تک 6 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کے ثبوت حاصل کرلئے گئے ہیں۔ مذکورہ سامان لاہور کے بڑے شاپنگ سینٹرز میں سپلائی کیا جا رہا تھا۔
کسٹم اپریزمنٹ ویسٹ سے ملنے والی معلومات کے مطابق گزشتہ روز کلکٹر کسٹم اپریزمنٹ ویسٹ واجد علی کو ملنے والی خفیہ اطلاع پر R&D برانچ اپریزمنٹ کے عملے نے KICT کنٹینر ٹرمینل پر متحدہ عرب امارات سے ٹرانس شپمنٹ (TP) کے تحت میسرز الجیران انجینئرنگ لاہور کے استعمال شدہ آٹو پارٹس ظاہر کر منگوائے گئے ایک کنٹینر کو جو کہ کسٹم بانڈڈ کیریئرکمپنی میسرز سیف الرحمن کے ذریعے لاہور ڈرائی پورٹ لے جائے جا رہے تھے، کو روک کر چیک کیا تو اس میں سے آٹو پارٹس کی جگہ بھاری مالیت کے موبائل فونز، ٹیبلیٹس، سیٹلائٹ ڈش ریسیور، سی سی ٹی وی کیمرے، کاپر ریفریجریشن ٹیوب، بال بیرنگز، سرکٹ بریکرز، فنگر پرنٹس اسکینرز اور ڈائلیسیز مشینیں برآمد ہوئیں۔کسٹم حکام کی جانب سے ابتدائی تحقیقات میں 6 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے ثبوت حاصل کرکے دونوں کمپنیوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور ڈپٹی کلکٹر عاصم اعوان اور اپریزنگ آفیسر عبدالقیوم مزید تحقیقات کررہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اسمگلروں کے علاوہ بڑے دکاندار اور بعض شاپنگ سینٹروں کے مالکان بھی ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق ایسے ملزمان کی فہرست مرتب کی جارہی ہے اور جلد ہی ان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ایک ایسا نیٹ ورک سرگرم ہے، جس کے کارندے دبئی سے بحری جہازوں کے ذریعے آنے والے قیمتی سامان کے کنٹینرز ڈرائی پورٹس پر پہنچنے سے پہلے ہی سیل توڑ کر قیمتی سامان نکال لیتے ہیں اور ان کنٹینرز میں کسٹم میں جمع کرائے گئے کاغذات میں ظاہر کیا گیا کم قیمت کا سامان رکھ دیتے ہیں۔ پھر جب یہ سامان کلیئرنس کیلئے ڈرائی پورٹس پر پہنچتا ہے تو وہاں موجود کسٹم افسران سامان کی نوعیت کے اعتبار سے کم ٹیکس میں اس کی کلیئرنس کردیتے ہیں۔ جس کیلئے ڈرائی پورٹ پر تعینات بعض کرپٹ افسران سے
پہلے ہی معاملات طے کرلئے جاتے ہیں۔
ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک کی وجہ سے سرکاری خزانے کو ٹیکس کی مد میں ہر سال کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ جبکہ وہ دکاندار اور تاجر کروڑوں روپے کا ناجائز منافع کما رہے ہیں جو اس مافیا کے ذریعے قیمتی سامان دبئی سے منگواتے ہیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق اس معاملے کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کچھ عرصہ قبل شروع کی گئی تھی، کیونکہ کراچی پورٹس سے پشاور جانے والے 1000 سے زائد کنٹینرز ایسے پائے گئے، جن کا سامان راستے میں تبدیل کیا گیا تھا، جبکہ یہی دھندا افغان ٹرانزٹ کے کنٹینرز کے ساتھ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت کراچی، لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور اور حیدر آباد سمیت ملک کے کئی شہروں کے بڑے شاپنگ سینٹرز اور دکانوں پر ایسا کپڑا، الیکٹرونک کا سامان، کاسمیٹکس اور ادویات کی بڑی تعداد موجود ہے، جو افغانستان جانے والے کنٹینرز اور ملک کے ڈرائی پورٹس سے کلیئر ہونے والے کنٹینرز میں سے نکال کر سپلائی کیا گیا۔
کسٹم ذرائع کے مطابق اس سے قبل یہی نیٹ ورک اس وقت سامنے آیا تھا، جب پشاور میں ایسے سامان کے کنٹینرز پکڑے گئے تھے۔ ان کے خلاف تحقیقات کیلئے 4 مقدمات پشاور میں اور ایک مقدمہ کراچی ایم سی سی ویسٹ میں درج کیا گیا تھا۔ اس اسکینڈل میں اقرا انٹرنیشنل نامی کمپنی کے خلاف بھی تحقیقات کی گئی تھیں، کیونکہ اس کمپنی کے نام پر آنے والے سامان کے کئی کنٹینرز میں سے قیمتی سامان نکال کر ان میں دوسرا سامان رکھ دیا گیا تھا۔ اس ضمن میں کسٹم حکام کو بڑی کامیابی اس وقت ملی، جب پشاور سے اقرا انٹرنیشنل کمپنی سے منسلک اہم ملزم سجاد کو گرفتارکیا گیا۔ ذرائع کے بقول اس ملزم کے پاس مذکورہ نیٹ ورک کی اہم معلومات ہیں۔
کسٹم ذرائع کے مطابق ان وارداتوں میں ملوث نیٹ ورک کے ملزمان بڑے دکانداروں اور شاپنگ سینٹرز کے مالکان سے آرڈر بک کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی سامان اگر تاجر خود دبئی سے منگوائیں تو انہیں بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس نیٹ ورک سے رابطہ کرتے ہیں۔ تاجروں کو ان کا مطلوبہ سامان ان کی دکانوں اور گوداموں پر سپلائی کردیا جاتا ہے، جس میں زیادہ تر کپڑا، الیکٹرونکس آئٹم، پروفیومز اور کاسمیٹکس کا سامان شامل ہوتا ہے۔ کسٹم ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والے ملزم ساجد نے اپنے گروپ میں شامل کئی اہم ملزمان کی نشاندہی کی اور ان بڑے دکانداروں و تاجروں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں، جنہیں گزشتہ عرصے میں سامان فراہم کیا جاتا رہا۔ ذرائع کے بقول کراچی کسٹم ویسٹ آر اینڈ ڈی کی حالیہ کارروائیاں ان ہی معلومات کا نتیجہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایوب جان نامی شخص کو اس پورے نیٹ ورک کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے، جو ماضی میں بھی کپڑے اور بارودی مواد کی اسمگلنگ کے الزامات میں گرفتار ہو چکا ہے۔ حالیہ عرصے میں جو فراڈ پکڑا گیا ہے، اس میں آنے والے کئی کنٹینرز اسی کی کاغذی کمپنیوں کے نام پر منگوائے گئے ہیں۔
کسٹم ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے کراچی میں کسٹم کے اعلیٰ حکام کی جانب سے کرپشن کے خلاف کارروائیوں میں کرپٹ افسران کی نگرانی شروع کی گئی ہے، کراچی سے سامان کی کلیئرنس میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب زیادہ تر سامان کراچی کے پورٹس پر پہنچنے کے بعد ملک کے دیگر ڈرائی پورٹس سے کلیئر کرانے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں 9 ڈرائی پورٹس ہیں، جن میں لاہور، کوئٹہ، پشاور، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد اور سیالکوٹ سمیت این ایل سی کے لاہور اور کوئٹہ میں واقع دو ڈرائی پورٹس شامل ہے۔ بحری جہازوں کے ذریعے کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ پہنچنے والے سامان کے ہزاروں کنٹینرز ان ڈرائی پورٹس پر جاتے ہیں، جہاں موجود کسٹم حکام ان کی جانچ پڑتال کرکے کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس وصولی کے بعد کلیئرنس دیتے ہیں۔ کسٹم ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ٹیکس چور اور مس ڈکلیئریشن کرنے والے گروپ ان ڈرائی پورٹس کا استعمال کرتے ہیں اور کراچی پورٹ کے بجائے اپنے سامان کو ڈرائی پورٹس پر کلیئر کروانے کیلئے کاغذات جمع کراتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post