جماعت الدعوہ اور جیش محمد کے خلاف مزید سخت اقدامات کا امکان

0

نجم الحسن عارف
پچھلے تقریباً اٹھارہ برسوں سے دہشت گردی کے الزامات کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں سے کلین چٹ پانے والی جماعت الدعوہ کو بھی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مغربی طاقتیں اگلے مرحلے پر جماعت الدعوہ اور جیش محمد کے قائدین کے خلاف مقدمات کے اندراج کے علاوہ بھارت کے حوالے کرنے یا ان کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات چلوانے کے مطالبات کے ساتھ حکومت پاکستان کو مزید دبائو میں لانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح یقینی بنانے کیلئے نریندر مودی اپنے عالمی اتحادیوں کی مدد سے پاکستان پر مزید دبائو بڑھانے کی کوشش میں ہیں، تاکہ حکومت پاکستان دبائو میں آکر ایسے فیصلے کرے، جن سے پاک فضائیہ کے شاہینوں کی طرف سے بھارتی فضائیہ کے دو طیاروں کو مار گرانے سے ہونے والی بھارتی سبکی کا ازالہ ہو سکے۔ چند روز قبل بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی، تاکہ کشمیر کی آزادی کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو دبایا جا سکے۔ مودی حکومت کے خیال میں جماعت اسلامی کے قائم اسکولوں سے تعلیم پانے والے طلبا و طالبات پاکستان کے حق میں اور بھارت سے آزادی پانے کیلئے سب سے زیادہ متحرک اور موثر آواز بنتے ہیں۔ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر عائد کی گئی پابندی کی زد میں آکر فوری طور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے فلاح عام ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والے تین سو سے زائد اسکول بند ہو گئے ہیں۔ ادھر پاکستان کی حکومت نے جماعت الدعوہ پر عالمی دبائو کے سبب پابندی لگانے کے بعد اب تک جماعت الدعوہ کے 182 مدارس، 34 اسکولز، 5 اسپتال، 163 ڈسپنسریوں اور 184 ایمبولینسوں کو بھی کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ذرائع کے بقول جماعت الدعوہ سے سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہے، کیونکہ اس کی قیادت کشمیری عوام کے حق میں بڑا واضح موقف رکھتی ہے۔ اب جماعت الدعوہ پر پابندی لگانے سے عملاً مودی کی انتخابی مہم میں سرحد کے اِس پار سے بھی مثبت حصہ ڈال دیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے علاوہ چھوٹی اپوزیشن جماعتیں بھی پی ٹی آئی حکومت کے ان اقدامات کی مخالفت نہیں کریں گی۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت نے جماعت الدعوہ اور جیش محمد پر پابندی لگانے سے پہلے اپوزیشن جماعتوں سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی اور نہ ہی معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا گیا۔ البتہ اب حکومت نے اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کالعدم قرار دی گئی جماعتوں کے حق میں کوئی بات نہیں کی جائے گی اور حکومت کے ساتھ تمام تر اختلافات کے باوجود اس معاملے میں حکومت کی سپورٹ کی جائے گی۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قوم پرستانہ تشخص کی حامل جماعتیں بھی بڑی اپوزیشن جماعتوں کی طرح حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی حمایت کریں گی۔ دوسری جانب بالواسطہ طور پر بھارتی دبائو کے نتیجے میں حکومت پاکستان کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی جماعت الدعوہ اور جیش محمد نے ابھی تک حکومتی اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی ہے کہ حکومت نے ابھی تک اپنے فیصلوں سے متعلق نوٹیفکیشن کی کاپی انہیں فراہم نہیں کی ہے۔ ذرائع کے بقول جیسے ہی نوٹیفکیشن کی کاپی دستیاب ہوگی کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کی طرف سے عدالت سے رجوع کر لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن کی کاپی ملنے کے بعد حکومتی فیصلے کے خلاف درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جائے گی یا اسلام آباد میں۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں تنظیموں کی قیادت کو ماضی میں بھارت کی طرف سے خطرات لاحق رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سیکورٹی سے متعلق ادارے ان خطرات سے آگاہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اس نوعیت کے سیکورٹی تھریٹس کی بنیاد پر سیکورٹی انتظامات بھی بہتر بنائے جاتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسی نوعیت کی اطلاعات کے باعث تقریباً چار ماہ سے جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے اپنی سرگرمیاں انتہائی محدود کر رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایسی اطلاعات گردش میں رہی ہیں کہ بھارت نے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حافظ سعید کو قتل کرانے کی بھی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اب نئے حالات میں جبکہ حافظ سعید کی جماعت کالعدم قرار دے دی گئی ہے، تو حافظ سعید دشمن کیلئے واضح ہدف ہو سکتے ہیں۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں جماعت الدعوہ کے وکیل رہنے والے سینئر وکیل اے کے ڈوگر سے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے سابقہ موکل حافظ سعید کی جان کو ہمیشہ خطرات رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے گھر پر طویل عرصے سے پہرہ لگایا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اب انہین ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہ سے زیادہ خطرے کا سامنا ہوگا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ ’’ماضی میں کبھی حکومت جماعت الدعوہ کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے۔ بھارتی کوششوں سے کئی سال پہلے حافظ سعید کے بلیک وارنٹ فرانس کے توسط سے پاکستان پہنچے تو اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت کے پاس پروفیسر حافظ سعید کے خلاف کوئی ایسی شہادت نہیں ہے۔ اسی عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ملک کی اعلی عدالتوں نے ہمیشہ حافظ سعید کے حق میں فیصلے دیئے اور عدالت نے حکومت کو ان کی نظربندی میں تین ماہ کی توسیع نہیں کرنے دی تھی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More