محمد علی اظہر
امریکی افواج میں خواتین سے زیادتی کے واقعات 10 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ ہراساں کرنے کے سب سے زیادہ واقعات امریکی بحریہ میں ریکارڈ کئے گئے۔ یہ اعداد و شمار مختلف سرویز کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ جبکہ زیادتی کے 100 میں سے 90 فیصد واقعات کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ ساتھی افسران اور اہلکاروں کی درندگی رپورٹ نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یو ایس ملٹری میں ریپ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جبکہ اگر کوئی متاثرہ خاتون امریکی ملٹری کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو اسے انصاف نہیں ملتا۔ بلکہ ملزم کو بری کر دیا جاتا ہے۔ امریکی افواج میں ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا بھانڈا خود ایک سابق خاتون پائلٹ نے پھوڑا ہے، جنہیں برسوں پہلے اعلیٰ افسر نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ یہی نہیں، امریکی فوجی اپنے اڈوں کے باہر اور بالخصوص جنگ سے متاثرہ ممالک میں بھی زیادتی کرتے رہے ہیں۔ 2009ء میں امریکی فوجی کی جانب سے ایک 14 سالہ عراقی بچی کے ساتھ زیادتی کی افسوسناک خبر بھی منظر عام پر آئی تھی۔ جس کے بعد یہ کیس امریکی سول کورٹ میں چلا تھا۔ ریاست کینٹکی کی عدالت نے سابق امریکی فوجی کو عراقی بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کا قصور وار پایا۔ جیوری نے فیصلہ دیا کہ 24 سالہ اسٹیون گرین 2006ء میں عراق کے علاقے محمودیہ میں پیش آنے والے اس واقعے میں مجرم ہے۔ اس واقعے میں کئی امریکی فوجیوں نے ایک چودہ سالہ عراقی بچی عبیر قاسم الجنبی کو جنسی حملے اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس بچی، اس کی بہن اور اس کے والدین کو ان کے گھر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ قتل کے بعد ان فوجیوں نے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے کے بعد چار امریکی فوجیوں پر فرد جرم عائد کی گئی۔ ان میں سے ایک شخص کو 110 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ جبکہ باقی تین کو پانچ سے سو برس قید تک کی سزایئں سنائی گئیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی اکیڈمیوں میں کیڈٹس بھی جنسی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں اور گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادتی کا شکار ہونے والے کیڈٹس کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی 2017ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء میں امریکی فوج میں جنسی زیادتی کے 6 ہزار 182 کیسز فائل ہوئے۔ یہ 2012ء کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہیں، جب 3 ہزار 604 کیسز رپورٹ کئے گئے تھے۔ پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی خواتین دشمن کے حملوں میں ہلاکت کی نسبت ساتھیوں اور افسران سے زیادتی کے خطرے کی زیادہ شکار ہیں۔ اس سے قبل صرف 2010ء میں ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد امریکی فوجی خواتین اور مرد مختلف نوعیت کے جنسی تشدد کا شکار رہے۔ ان میں سے 68 ہزار سے زائد نے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی تکلیف دور کرنے کے لئے کم از کم ایک مرتبہ ملٹری کلینکس کا رخ کیا۔ واضح رہے کہ 1861ء تک خواتین فوجی اہلکاروں کے ساتھ زیادتی کو امریکہ میں ملٹری کرائم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی افواج میں خواتین کئی دہائیوں سے زیادتی کا شکار ہوتی آ رہی ہیں۔ امریکی فوج میں 2017ء میں جنسی زیادتی کے 6 ہزار 800 واقعات رپورٹ ہوئے اور ان میں پچھلے سال کی نسبت دس فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس حوالے سے سابق امریکی خاتون پائلٹ نے گزشتہ دنوں ہوش ربا انکشاف کیا ہے۔ سابق پائلٹ اور امریکی سینیٹر مارتھا میکسیلی نے انکشاف کیا ہے کہ ایئر فورس کی سروس کے دوران ان کے ایک اعلیٰ افسر نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ مارتھا میکسیلی پہلی امریکی خاتون پائلٹ تھیں، جنہوں نے بطور جنگی پائلٹ جنگوں میں حصہ لیا۔ ریاست ایریزونا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر مارتھا میکسیلی نے کہا کہ انہوں نے اس واقعے کو رپورٹ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ شرمندگی محسوس کر رہی تھیں اور اس وقت انہیں محکمے میں انصاف کے نظام پر اعتماد نہیں تھا۔ امریکی فوج میں جنسی حملوں سے متعلق سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران سینیٹر میکسیلی نے کہا کہ ’’میں بھی آپ کی طرح جنسی حملوں کو سہنے والوں میں سے ہوں۔ لیکن آپ جیسی بہادر نہیں تھی اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز نہیں اٹھائی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کئی مرد اور عورتوں کی طرح اس وقت کے نظام پر اعتماد نہیں تھا۔ 52 سالہ سینیٹر میکسیلی نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بھی مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ کیونکہ انہیں واقعے کو رپورٹ کرنے میں شرم محسوتی تھی اور وہ بے حد پریشان تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جنسی حملہ آور اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک بار تو ان کے ایک اعلیٰ نے افسر ان سے زیادتی کی۔ سینیٹر میکسیلی نے کہا کہ برسوں بعد جب انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو اعلیٰ افسران کو بتانے کی کوشش کی تو بھی ان کا ردعمل انتہائی ناکافی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ ایئر فورس میں 18 سال کی سروس کے بعد فضائیہ کو چھوڑنے کا سوچنے لگی تھیں۔ انہوں نے کہا ’’مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ امریکی افواج کا نظام میرے ساتھ بار بار زیادتی کر رہا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ سینیٹر میکسیلی نے 26 برس تک ایئر فورس میں سروس کی اور کرنل کے عہدے تک ترقی پائی۔ سینیٹر میکسیلی ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد دو بار ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوئیں اور رواں برس جنوری میں سینیٹر منتخب ہوئیں۔
٭٭٭٭٭