سدھارتھ شری واستو
اٹلی اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما دوستوں کی لاشوں کو امدادی ٹیموں نے دریافت تو کرلیا مگر ان کی باقیات کو حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد نانگا پربت کو ان ’’کوہ پیمائوں کا مدفن‘‘ قرار دے دیا گیا ہے، جس سے اطالوی و برطانوی سفیروں اور متعلقہ خاندانوں نے اتفاق کیا ہے اور حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے کہ ان دونوں مہم جو کھوجیوں اور برفانی پہاڑوں کا سینہ روندنے والوں کی تلاش کی گئی لیکن ان کی باقیات کو واپس لانا ناممکنات میں سے تھا، جس کے بعد ان کی تلاش مہم کا خاتمہ کردیا گیا۔ برطانوی اور اطالوی دوست کوہ پیمائوں کی گمشدگی کی اطلاعات 24 فروری کو ملی تھیں۔ 12 گھنٹے سے زائد گزر جانے کے باوجود بیس کیمپ کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔ برطانوی اور اطالوی کوہ پیما دوستوں ٹوم بالارڈ اور ناردی ڈینیل کی تلاش میں مدد فراہم کرنے والے پاکستانی امدادی ادارے الپائن کلب آف پاکستان نے عالمی میڈیا کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ دونوں کوہ پیمائوں کی تلاش کیلئے حساس پیمانے اور خطوط پر کوششیں کی گئیں، جس کے بعد دو روز قبل ان دونوں کوہ پیما دوستوں کی لاشیں ممیری کے پوائنٹ پر 6 ہزار میٹرکی بلندی پر ایسے مقام پر پائی گئیں جہاں سے ان کو اُٹھانا یا واپس لانا ناممکن تھا۔ جس کی وجہ سے دونوں کوہ پیما کھوجیوں کے اہل خانہ اور متعلقہ سفیروں کی مشاورت کے بعد نانگا پربت کو ان دونوں کوہ پیمائوں کی آخری آرام گاہ قرار دیا گیا۔ اس مشاورت کے بعد اطالوی سفیر استی فانو پونکروئو نے اپنے آفیشل اکائونٹ پر دونوں کی باضابطہ موت اور نانگا پربت کو ان کا مدفن قرار دینے کی تصدیق کی۔ 30 سالہ برطانوی کوہ پیما ٹوم بالارڈ کے ڈربی شائر میں موجود 72 سالہ والد جم بالارڈ نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں اپنے صاحبزادے ٹوم کی موت کو ایک اورگمبھیر سانحہ اور فیملی کو پہنچنے والا دوسرا سنگین جھٹکا کہا۔ مسٹر جم کا کہنا ہے کہ آج سے چوبیس برس قبل ان کی بیوی، کے ٹو سر کرتے ہوئے ہلاک ہوگئی تھیں اور آج ایک بار پھر ان کے صاحبزادے کی موت نے ان کو غمزدہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ممیری (Mummery) پوائنٹ یا روٹ ایک ایسا خطرناک راستہ ہے، جس کو آج تک کوئی بھی مہم جو کوہ پیما سر نہیں کر پایا ہے اور نانگا پربت کو سر کرنے کیلئے آنے والے تمام کوہ پیمائوں کو بیس کیمپ پر ہی اس بارے میں سمجھا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس بریفنگ کے باوجود دونوں دوست کوہ پیمائوں نے ممیری پوائنٹ سے ہی نانگا پربت کو سر کرنے کا عہد کیا تھا۔ مقامی و عالمی میڈیا نے بتایا ہے کہ 24 فروری کو اطالوی اور برطانوی کوہ پیمائوں کی گمشدگی سے ایک ہفتے قبل بھی چار ہسپانوی کوہ پیما ایک پُرخطر مہم میں لا پتہ ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی جانب سے دیئے جانے والے ہنگامی سگنلز کے بعد ایک ملٹری ہیلی کاپٹر نے ان کو ریسکیو کرلیا تھا، اور انہیں بیس کیمپ تک بحافظت پہنچایا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے اطالوی اور برطانوی کوہ پیما دوستوں کی جانب سے کوئی سگنل نہیں ملا اور وہ برفانی طوفان کے سبب تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے۔ اطالوی جریدے لا ری پبلکا نے ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دونوں کوہ پیما دوستوں کی یاد میں اٹلی اور برطانیہ میں کئی تقریبات منعقد ہوئی ہیں اور دونوں خاندانوں، ان کے لواحقین اور مداحوں نے دونوں دوستوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اطالوی جریدے کا کہنا ہے کہ نانگا پربت/ گلگت بلتستان ریجن میں ہے اور اس کی اونچائی 26 ہزار 660 فٹ بتائی گئی ہے۔ اس کا نصف سے زیادہ حصہ یعنی 20,700 ان دونوں بہادر دوستوں نے عبور کرلیا تھا اور صرف چھ ہزار فٹ کا بقایا چوٹی کا حصہ سر کرنا باقی تھا کہ 24 فروری کو دونوں شدید برفانی طوفانی تھپیڑوں کی زد میں آگئے اور پوری دنیا یہ نہیں جان پائی ہے کہ ان کے ساتھ مزید کیا واقعات رونما ہوئے۔ لا ری پبلکا نے بتایا ہے کہ اطالوی سفیر نے کوہ پیمائوں کی گمشدگی کے اس پورے منظر نامہ میں پاکستانی اتھارٹیز اور امدادی ٹیموں کے ساتھ فعال کردار ادا کیا ہے اور اطالوی اسپیشل ٹیم ممبرز نے پاکستانی ملٹری کے ہیلی کاپٹرز میں بیٹھ کر ہر ممکن آخری مقام تک کوہ پیماؤں کی تلاش کی۔ ممیری پوائنٹس پر 20 ہزار فٹ کی بلندی پر ایسی ہائی ریزیولیوشن تصاویر اُتاری گئی ہیں، جن کے تجزیے نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ لاشیں یا باقیات دونوں اطالوی اور برطانوی کوہ پیما دوستوں ٹوم بالارڈ اور ناردی ڈینیل کی ہی ہیں اور اس قدر مشکل مقام پر موجود ہیں کہ ان تک کوئی جا نہیں سکتا اور ہیلی کاپٹرز بھی اس مقام پر اتر نہیں سکتا۔ پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اطالوی اور برطانوی کوہ پیمائوں کی تلاش کیلئے 13 دنوں تک پیہم امدادی کوششیں اور جوکھم کی کارروائیاں کی گئی تھیں لیکن سبھی بے سود رہیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نانگا پربت سر کرنے والے کوہ پیمائوں میں سے برطانوی کوہ پیما 30 سالہ ٹوم بالارڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس طرح اس نے نانگا پربت کی مشکل ترین سائیڈ کو عبور کرنے اور قومی پرچم لہرانے کی کوشش میں اپنی جان دی ہے عین اسی طرز پر برطانوی کوہ پیما ٹوم بالارڈ کی والدہ ایلی سن ہار گریوز نے 24 برس قبل1995میں بھی اپنی جان قاتل پہاڑ K2 کی چوٹی کو سر کرتے ہوئے دے دی تھی اور برطانوی میڈیا کے مطابق ٹوم بالارڈ کی موت نے ایک بار پھرعجیب و غریب تاریخ دہرائی ہے کہ 25 برس قبل ایک ماں نے برفانی پہاڑ پر اپنی جان جوکھم میں ڈالی تھی اور اب اسی ماں کے بیٹے نے اپنی جان اسی خطہ کے برفانی پہاڑ پر دی ہے۔ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہلاک کوہ پیما ٹوم بالارڈ کی والدہ ایلی سن کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے1995 میں کسی کی مدد کے بغیر مائونٹ ایورسٹ سمیت کئی برفانی چوٹیاں سر کی تھیں اور اسی برس ان کا حوصلہ اس قدر بڑھا کہ انہوں نے مائونٹ ایورسٹ کے بعد اسی خطہ میں K2 کی چوٹی بھی کسی کی مدد کے بغیر تن تنہا عبور کرنے کی جسارت کی تھی، لیکن وہ ایک برفانی طوفان کی زد میں آکر ہلاک ہوگئیں۔
٭٭٭٭٭
Next Post