علی مسعود اعظمی
سعودی حکومت کو خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا مہنگا پڑ گیا۔ سعودی مفتی اعظم کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا سڑکوں پر مزید حادثات کو جنم دینے کے مترادف ہے۔ ڈرائیونگ کی شوقین سعودی خواتین نے ساڑھے پانچ ماہ کے اندر 710 ایکسیڈنٹس کر دیئے۔ چھ ماہ سے بھی قلیل مدت میں سعودی سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی اصل تعداد 8 ہزار 772 رہی۔ تاہم سعودی حکام نے خواتین کی جانب سے کئے جانے والے حادثات کی یہ تعداد بیان نہیں کی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چھوٹے موٹے حادثات پر ان خواتین نے متاثرہ فریق کی گاڑی کو پہنچنے والے نقصانات کی ’’بھرپائی‘‘ کیلئے مناسب یا منہ مانگا معاوضہ ادا کر دیا تھا جس کی وجہ سے متاثرین نے خواتین ڈرائیورز کیخلاف نہ تو کیس درج کروایا اور نہ ہی ان کیسوں کو عدالتوں میں بھجوایا گیا، جس کی وجہ سے عدالتوں میں ان خواتین ڈرائیورز کے حادثات کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں ابتدائی ادوار سے ہی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے خواتین کو ڈرائیونگ میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ سماجی تجزیہ نگاروں سمیت ٹریفک حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ ٹریفک حادثات کی تعداد میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصہ سے خواتین کیلئے ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تھی۔ اسی لئے خواتین کی بہت بڑی تعداد ڈرائیونگ سے نا بلد تھی اور نہ ہی انہوں نے ڈرائیونگ سیکھی۔ اب جبکہ انہیں مملکت میں ڈرائیونگ کی اجازت دے دی گئی ہے تو ان کیلئے ڈرائیونگ فوری طور پر سیکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ڈرائیونگ کی اجازت کے بعد ہزاروں خواتین نے نئے کھلنے والے خواتین کار ڈرائیونگ سینٹرز سے رابطہ کیا اور جلد بازی میں گاڑی سیکھنا شروع کردی۔ یہی وجوہات ہیں کہ خواتین ڈرائیورز اتنی مشاق نہیں ہیں اور حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے ساڑھے پانچ ماہ کی مدت میں خواتین کے ہاتھوں کئے جانے والے ایکسیڈنٹس کی تعداد 710 اس لئے ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی کہ ان حادثات کا سبب بننے والی خواتین ڈرائیورز متاثرہ فریق کو مناسب ہرجانے کی ادائیگی میں ناکام رہی تھیں، جس کی وجہ سے ان 710 کیسوں کو عدالتوں میں پیش کیا گیا۔ سعودی جریدے الوطن کا ایک رپورٹ میں ماننا ہے کہ جب سے سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی ہے تب سے ٹریفک حادثات کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے، جس میں ٹریفک حادثات کیس کے معاملات اور ان سے متعلق مقدمات کی تعداد 8,772 ریکارڈ کی گئی ہے۔ ٹریفک حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کی جانب سے جو حادثات رونما ہوئے ہیں ان میں کار کو پیچھے سے ٹکر مارنا، فٹ پاتھ پر چڑھا دینا، بغیر ہوشیار کئے اوور ٹیک کرنا، ٹرننگ پر کار کو بیریئرز سے یا رکاوٹوں سے ٹکرا دینا اور درست طور پر بر وقت بریک نہ لگانا جیسے معاملات شامل ہیں۔ متعلقہ عدالتی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان تمام مقدمات کو بہت جلد نمٹا دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے قانونی مشیر عاصم المالا کا کہنا تھا کہ امسال ٹریفک حادثات کی تعداد میں ملوث 8 فیصد خواتین ڈرائیورز بھی شامل ہیں، جن کیخلاف عدالتی فورمز پر کارروائی کی جارہی ہے۔ ٹریفک قوانین کے حوالہ سے سعودی حکام نے بتایا ہے کہ مملکت میں ڈرائیونگ کے سخت قوانین کسی بھی جنس کیلئے نرم نہیں ہیں اور تمام خواتین ڈرائیورز کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے سگنل توڑا تو اس کی سزا مرد ڈرائیورز کے مساوی ہے اور ان کو بھی تین روز کیلئے جیل بھیجا جائے گا۔ مزید قوانین کی خلاف ورزی پر ان کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کردیا جائے گا اور بھاری جرمانہ کی ادائیگی کا ٹکٹ کاٹا جائے گا۔ اس سلسلہ میں بڑی دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سعودی معاشرے میں مرد حضرات خواتین ڈرائیورز کا مذاق اُڑاتے ہیں اور ان کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ دینے پر مصر ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جون 2018ء میں جب سعودی خواتین کو پہلی بار ڈرائیونگ کی اجازت ملی تو پہلے ہی دن دارالحکومت ریاض میں ایک خاتون نے دوسری کار کو زبردست ٹکر دے ماری۔ خوش قسمتی سے یہ حادثہ سنگین نوعیت کا نہیں تھا، جس میں صرف کاروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا اور دونوں ڈرائیورز محفوظ رہے۔ واضح رہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دیئے جانے کے بعد خواتین نے اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنا اور واپس لانا شروع کردیا ہے اور بیشتر خواتین نے خود ڈرائیو کرکے آفس اور رشتے داروں کے گھر جانے کا راستہ ہموار کرلیا ہے۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت کے بعد مملکت کے مختلف شہروں میں نہ صرف خواتین کیلئے کار ڈرائیونگ ٹریننگ اداروں کا تیزی سے قیام عمل میں آیا ہے، بلکہ دارالحکومت ریاض میں کئی ایک لیڈیز شو رومز بھی کھل گئے ہیں، جہاں خواتین خریداروں اورمداحوں کی بڑی بھیڑ دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ اسی منظر نامہ میں سعودی کار انشورنس کے متعدد اداروں نے اپنا کاروبار بھی دبنگ اسٹائل میں شروع کیا ہے، جہاں سب سے زیادہ ’’صارفین‘‘ کی تعداد خواتین کی پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی اپنی کاروں اور لگژری گاڑیوں کی انشورنس کروائی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انشورنس مالی نقصان سے بچائو کا بہترین طریقہ ہے۔ ریاض ریجن میں سعودی ادارے وزارت ٹرانسپورٹ اینڈ لاجسٹک کے ڈائریکٹر سلمان الضلعان نے بتایا ہے کہ ان کا محکمہ وزارت نقل و حمل میں ڈرائیونگ کی شوقین ماہر خواتین کو ملازمتیں فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post