وجیہ احمد صدیقی
پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے چنائو میں نواز لیگ کے صدر شہباز شریف کی حمایت پر تیار ہے۔ جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی کے اہم عہدے کیلئے تمام اپوزیشن جماعتیں پی پی کے سینیئر رہنما سید خورشید شاہ کو سپورٹ کریں گی۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف کیلئے پیپلز پارٹی بلاول کی نامزدگی کے مطالبے پر ڈٹ گئی اور اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے ہے کہ سابق صدر زرداری اور چیئرمین بلاول خود کو اے پی سی اجلاسوں سے دور رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اس امکان پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے کہ قائد حزب اختلاف نوجوان بلاول کے علاوہ کوئی اور ہو۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر شہبازشریف کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم نواز لیگ کے بعض رہنمائوں کو اس وعدے پر اعتبار نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خورشید شاہ، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کو حیران کرسکتے ہیں۔ انہوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی کمپین چلانا شروع کردی ہے۔ کیونکہ اسپیکر کے انتخاب کیلئے ووٹنگ خفیہ ہوتی ہے۔ ادھر تحریک انصاف میں اب تک اسپیکر کے امیدوار کے نام کیلئے کوئی اتفاق رائے نظر نہیں آرہا ہے اور پی ٹی آئی میں موجود خورشید شاہ کے ’’پرانے دوست‘‘ اسپیکر کیلئے انہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم کا انتخاب خفیہ نہیں ہوتا، اس لیے کوئی بھی رکن فلور کراسنگ کرکے اپنی رکنیت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہے گا۔ کسی بھی جماعت کے رکن کو اپنی پارٹی کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بطور جماعت اپوزیشن اتحاد کے احکامات کی پابند نہیں ہے، وہ عین وقت پر فیصلہ تبدیل کرسکتی ہے اور اسپیکر کے عہدے پر سودے بازی کرکے پی ٹی آئی کو ووٹ دے سکتی ہے۔ کیونکہ کل جماعتی کانفرنس میں اپوزیشن کی ہر سیاسی جماعت کے سربراہ نے شرکت کی ہے اور اپنی جماعت کی جانب سے کانفرنس کے فیصلوں پر عملدرامدکی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے اس کی دوسرے درجے کی قیادت نے اے پی سی میں شرکت کی ہے۔ یہاں تک کہ بلاول زرداری اسلام آباد میں ہوتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت کیلئے نہیں آئے۔ آصف علی زرداری کیلئے بھی ان کانفرنسوں میں شرکت کرنا مشکل نہیں تھا۔ لیکن وہ اسی لئے اے پی سی کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے کہ اس کے فیصلوں کے وہ اخلاقی طور پر پابند نہیں ہونا چاہتے۔ ان ذرائع کے بقول آصف زرداری تو شہبازشریف کے ساتھ بیٹھنا ہی نہیں چاہتے۔ کیونکہ انہیں شہبازشریف کے وہ جملے یاد آتے ہیں جن میں انہوں نے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تھی۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ بلاول زرداری کو دیا جائے۔ لیکن شہبازشریف اس کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ اب پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل نہیں۔ انہوں نے پنجاب میں حکومت بنانے کی ذمہ داری حمزہ شہباز پر چھوڑ دی ہے۔ اس لئے وزیر اعظم نہ بننے کی صورت میں قائد حزب اختلاف بننا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اے پی سی اجلاس میں اپوزیشن جماعتیں کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بناسکی ہیں۔ ادھر مولانا فضل الرحمان، لیاقت بلوچ اور سراج الحق کی اشک شوئی کیلئے گرینڈ اپوزیشن الائنس کی ورکنگ کمیٹی نے اپنے اتحاد کا نام ’’اتحاد برائے صاف شفاف انتخابات‘‘ رکھنے کا اعلان کیا ہے اور انہی کی ضد پر حالیہ الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف 8 اگست بروز بدھ کو الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر کے سامنے بازئوں پر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں9 اگست کو صوبوں میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر مشترکہ احتجاجی مظاہرہ کریں گی۔ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بھی بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہونے پر اپوزیشن جماعتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قائد ایوان کے چنائوکے روز احتجاج نہ کرنے، جبکہ ایم ایم اے اور دیگر جماعتیں احتجاج کرنے پر مصر ہیں۔ پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ اس روز پوری دنیا میں قائد ایوان کے چنائوکے بارے میں دکھایا جائے گا جس سے جمہوریت کے بارے میں منفی پیغام جائے گا۔ اس لئے یہ احتجاج بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کا موقف تھا کہ اس روز مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو بھی وزیراعظم کا الیکشن لڑنا ہے، لہٰذا احتجاج سے قوم کو منفی پیغام جائے گا۔
٭٭٭٭٭
Next Post