کراچی (رپورٹ: سید نبیل اختر) سابق صدر آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف35 ارب کی منی لانڈرنگ کیس کی ایف آئی اے تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس پر شریک پی پی چیئرمین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے کارروائی تیز کردی گئی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے تفتیش کاروں نے زرداری پرائیوٹ لمیٹڈ کے بینک اکاؤنٹ میں بے نامی کھاتے سے 8 کروڑ روپے آنے کے بعد اسی بینک اکاؤنٹ سے، دوسرے بے نامی کھاتے میں 3 کروڑ روپے کی منتقلی کا ریکارڈ بھی حاصل کرلیا ہے، جو کل سپریم کورٹ میں پیش کردیا جائے گا۔بینکوں سے موصول اب تک کے ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ منی ٹریل70 ارب تک جاپہنچی ہے جبکہ ریکارڈ تواتر سے مل رہا ہے، جس کے نتیجے میں منی لانڈرنگ 75ارب روپے سے بھی تجاوز کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ایف آئی اے نے زرداری فرم کے کھاتے سے 3 کروڑ کی وہ ٹرانزیکشن بھی تحقیقات میں شامل کی ہے جس میں فریال تالپور کے دستخط سے اویس مظفر ٹپی کے بینک کھاتے میں 3کروڑ روپے منتقل کیے گئے تھے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بینک سے حاصل ریکارڈ کو جھٹلانے کے بجائے ایف آئی اے افسران کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔ان کی تمام توجہ سوموٹو واپس کرانے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ تاکہ کیس معمول کی عدالتی کارروائی کے تحت چلتا رہے۔ سابق صدر کی ہمشیرہ فریال تالپور نے اس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ اور اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی آر اور چالان داخل ہوچکے ہیں جن میں منی لانڈرنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایسے میں سوموٹو کارروائی کو چلانا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ از خود نوٹس کیس کی کارروائی ختم کرے اور ایف آئی اے کو جعلی اکاونٹس کا حتمی چالان جمع کرانے کا حکم دیا جائے۔پی پی رہنما نے ڈی جی ایف آئی اے پر سازش کا الزام بھی عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نجف مرزا کو تبدیل کیا جائے۔ ادھر ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی ادارے کے قواعد پر عملدرآمد سے صرف بے نامی کھاتوں میں موجود رقم ضبط ہوسکے گی، جبکہ پاناما طرز کی جے آئی ٹی بنائے بغیر منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے خلاف سزائیں مشکل ہوجائیں گی۔اطلاعات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی اطلاع وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو پہلی مرتبہ 2015 میں دی گئی جس میں 4بینک اکاؤنٹس کی ایس ٹی آرز کو مشکوک ترسیلات قرار دیا گیا ۔مارچ 2015 میں ڈائریکٹر ایف آئی اے کے حکم پر انکوائری بھی ہوئی اور انکوائری میں مقدمے درج کرنے کی سفارش بھی کی گئی لیکن شدید اور بھاری سیاسی دباؤ کے باعث نہ مقدمہ کیا گیا نہ ہی انکوائری کو آگے بڑھایا گیا۔ دسمبر2017 میں پچھلے 4 اکاؤنٹس سمیت 29 اکاؤنٹس کا بتایا گیا جس پر انکوائری دوبارہ شروع ہوئی، یہ 29 اکاؤنٹس تین بینکوں میں ہیں جن میں سے سمٹ بینک کے16، سندھ بینک کے8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔پچھلی انکوائری کی رپورٹ بھی شامل کی گئی، تحقیقات میں ابتدا میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈال دیا گیا۔ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق منی لانڈرنگ کی اصل رقم 70 ارب روپے سے زائد ہے جس کا یومیہ بنیادوں پر ریکارڈ طلب کیا جارہا ہے ‘ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے ۔حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے۔ یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاؤنٹ میں بھیجی گئی تھی۔ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔ ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا اوراومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ منی لانڈرنگ 29 سے بڑھ کر 65 جعلی بینک کھاتوں کے ذریعے کی گئی ہے ۔ایف آئی اے حکام اب ان 65جعلی بینک اکائونٹس کی تحقیقات کررہے ہیں جن کے ذریعے 70ارب روپے سے زائد کی غیر قانونی رقم منتقل کی گئی۔ ابتدا میں منی لانڈرنگ کا حجم35ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر70ارب روپے تک پہنچ گیا۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ہم فنانشل یونٹ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر 4نجی بینکوں سے تمام مشکوک ٹرانزیکشن کی تفصیلات حاصل کررہے ہیں۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ کریڈٹ ڈپازٹرز کی تعداد 15سے بڑھ کر دو درجن ہو گئی ہے، انوسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق 4 ارب 43کروڑ 15 لاکھ 45 ہزار 792روپے مختلف جعلی اکائونٹس کے ذریعے منتقل کیے گئے،ان میں ایم ایس پراجیکٹ اور زین ملک نے75کروڑ،ایم ایس سجوال ایگری فارمز پرائیویٹ لمیٹڈ 5کروڑ 5لاکھ، ایم ایس ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز 23کروڑ 84لاکھ 46ہزار، ایم ایس اومنی پرائیویٹ لمیٹڈ 5کروڑ، ایم ایس ایگرو فارمز ایک کروڑ70لاکھ، ایم ایس الفاذولو کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ 2 کروڑ 25لاکھ، حاجی مرید اختر( بینکر کنٹریکٹر کی طرف سے )2کروڑ، ایم ایس شیر محمد مغیری اینڈ کمپنی ( کنٹریکٹر) 5کروڑ، ایم این سردار محمد اشرف بلوچ پرائیویٹ لمیٹڈ ( کنٹریکٹر) 10کروڑ، ایم ایس اے ون انٹرنیشنل 18کروڑ 45 لاکھ 6ہزار 490روپے، ایم ایس لکی انٹرنیشنل 30کرو ڑ50لاکھ، ایم ایس لاجسٹک ٹریڈنگ ( آئی آئی چندریگر روڈ) 14کروڑ50لاکھ، ایم ایس اقبال میٹلز 15 کروڑ 63 لاکھ 80ہزار 86روپے، ایم این رائل انٹرنیشنل 18کروڑ50لاکھ اور این آئی ایس عمیر ایسوسی ایٹس نے 58کروڑ12لاکھ روپے منتقل کیے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق مستفید ہونے والے افراد اور کمپنیوں کی تعداد20 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ انوسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق رقم حاصل کرنے والے افراد میں چیئرمین سمٹ بینک نصیر عبد اللہ لوتہ 49 کروڑ20لاکھ، ایم ایس انصاری شوگر ملز( انور مجید) علی کامہ7 کروڑ 37 لاکھ 82ہزار 303روپے، ایم ایس اومنی پولی میر پیکیجز پرائیویٹ لیمٹڈ( عبدالغنی مجید) 50لاکھ، ایم ایس ایتھا نول، مصطفیٰ ذول گسنالز مجید اینڈ عبدالغنی مجید ایک کروڑ 50لاکھ، ایم ایس چیمبر شوگر ملز (انور مجید، نمر مجید) 20کروڑ، ایم ایس ایگرو فارمز تھالیہ (انور مجید، ناذلی مجید) 57لاکھ، ایم ایس زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ (آصف زرداری، فریال تالپور و دیگر) 15کروڑ، ایم ایس پارتھی نین(اقبال خان، نوری) 5لاکھ، ایم ایس اے ون انٹرنیشنل 5لاکھ 75 ہزار 249روپے، ایم ایس لکی انٹرنیشنل 10کروڑ 2لاکھ، ایم ایس لاجسٹک ٹریڈنگ چودہ کروڑ پچاس لاکھ، ایم ایس رائل انٹرنیشنل 28کروڑ50 لاکھ، جبکہ عمیر ایسوسی ایٹس نے80کروڑ دس لاکھ روپے وصول کیے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ غیر قانونی رقوم دبئی منتقل کی گئیں۔ انور مجید جو اومنی گروپ آف انڈسٹریزکے مالک ہیں ، اس رقم کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں ، وہ اب پاکستان سے فرار ہو چکے ہیں ، ان کے آجر خواجہ انور مجید اور عبد الغنی مجید کی ہدایت پر بینک حکام کی ملی بھگت سے جعلی اکائونٹ کھولا گیا۔ انور مجید خوسکی شوگر ملز ، ایگرو فارمز ٹھٹھہ ، انصاری شوگر ملز، ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز پرائیویٹ لمیٹد اور چیمبر شوگر ملز کے ڈائریکٹر ہیں۔23کروڑ44لاکھ60ہزار کے پندرہ چیک یو بی ایل آواری ٹاور برانچ اکائونٹ نمبر 0200129022میں ٹرانسفر ہوئے۔ ایم ایس انصاری شوگر ملز عبد الغنی مجید میں 7 کروڑ 37 لاکھ 82 ہزار 303اور چیمبر شوگر ملز میں بیس کروڑ جب کہ اے ون انٹرنیشنل کے اکائونٹ سے نصیر عبد اللہ لوتہ کے اکاؤنٹ میں 49کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم منتقل ہوئی۔ یہ رقم بھی اومنی گروپ کے ڈائریکٹرز کی ہدایات پر ٹرانسفر کی گئی۔ عبد الغنی کو اومنی پولی میر پیکیجز، خوسکی شوگر ملز، ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز اور ایتھانول پرائیویٹ لمیٹڈ کے اکائونٹس سے بھاری رقم ملی جو اربوں میں ہے۔ اومنی گروپ کی مختلف کمپنیوں کے سی ایف او اسلم مسعود نے سمٹ بینک کے حکام کو اے ون انٹرنیشنل کا بینک اکائونٹ کھولنے کے لیے اوپننگ فارم دکھایا، وہ ایگرو فارمز ٹھٹھہ کے بھی دستخطی ہیں ۔ اس وقت کی ریلیشن افسر نورین سلطان نے اے ون انٹرنیشنل کا اکائونٹ کھولنے اور ڈائریکٹرز منیجرز ایمپلائز آف اومنی گروپ کے اکائونٹس آپریشنز میں تعاون کا اعتراف کیا ہے۔ ارم اگی ( ابراہیم لنکرز کے نام دو اکائونٹ) نے عارف حبیب بینک جو اب سمٹ بینک ہے میں اکائونٹ کھولنے کا اعتراف کیا تاہم سندھ بینک میں اکائونٹ نمبر 0354-151324-1000کی ملکیت سے انکار کیا، تحقیقاتی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ بینک اکائونٹس میں اقبال میٹلز، لاجسٹک ٹریڈنگ اور رائل انٹرنیشنل کے ایڈریس ظاہر کیے گئے ہیں ۔ اے ون انٹرنیشنل ،ابراہیم لنکرز، اور عمیر ایسوسی ایٹس انٹرنیشنل بزنس سنٹر اینڈ شاپنگ سنٹر عبد اللہ ہارون روڈ کراچی کا ایڈریس ہے جو ایم ایس پار تھی نن پرائیوٹ لمیٹڈ کی ہے۔ ان اکائونٹس سے دیگر کے علاوہ ایم ایس پار تھی نن کے اکائونٹس میں بھی رقم منتقل کی گئی ہے۔ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران زرداری پرائیوٹ لمیٹڈ میں ایک بے نامی کھاتے سے 8 کروڑ روپے منتقل ہونے کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ اسی بینک کھاتے سے دوسرے بے نامی کھاتے میں 3 کروڑ روپے کی منتقلی کے شواہد بھی ملے ہیں جو سپریم کورٹ میں کل جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں ظاہر کردیئے گئے ہیں ۔ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ زرداری پرائیویٹ لمیٹڈ کے بینک کھاتے سے اویس مظفر ٹپی کے کھاتے میں بھیجے گئے 3 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ اس بینک کھاتے سے لاتعلقی کا آپشن استعمال نہ کیا جاسکے ۔ ایف آئی اے کی جانب سے زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر پیپلز پارٹی نے بینک سے حاصل ریکارڈ کو جھٹلانے کے بجائے ایف آئی اے افسران کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور نے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نجف مرزا کو تبدیل کر کے غیر جانبدار افسر لگانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ازخود نوٹس کیس کی کارروائی کو ختم کیا جائے اور ایف آئی اے کو حتمی چالان جمع کرانےکا حکم دیا جائے۔فریال تالپور نے درخواست میں الزام عائد کیا کہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، نجف مرزا اور محمد علی ابڑو آصف علی زرداری کے خلاف سازش کررہے ہیں ‘عبوری چالان میں ہم دونوں کے نام شامل کرنا بد نیتی تھی جس کا مقصد بدنام کرنا تھا تاکہ ہم الیکشن ہار جائیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ایف آئی آر اور چالان میں منی لانڈرنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ایف آئی اے کو ہمیں حراساں کرنے سے روکا جائے۔ ذرائع کے مطابق پی پی رہنما سمجھتے ہیں کہ معمول کی عدالتی کارروائی سے کیس کو لٹکانے میں آسانی ہوگی ۔ نیز کسی ڈیل پر بھی پہنچا جاسکتا ہے جب کہ از خود نوٹس کی لٹکتی تلوار ایف آئی اے پر حکومتی دباؤ ڈلوانے میں مشکلات کا سبب بنے گی ۔ دریں اثنا جعلی بنک اکاونٹس، منی لانڈرنگ کے معاملہ پر سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے نوٹس پر جواب جمع کرا دیا ہے جس میں کمیشن نے کمپنیوں کی بینک ٹرانزیکشن کے معاملہ پر لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ جعلی بینک اکاونٹس کے معاملے پر ایف آئی اے سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ کارپوریٹ سیکشن، کیپٹل مارکیٹ، نان بنکنگ فنانس کمپنیز کو ریگولر کرنا ہمارا مینڈیٹ ہے تاہم کمپنیوں کے بینک اکاونٹس کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لینا ہمارا اختیار نہیں۔ ایس ای سی پی نے اپنے جواب میں کہا کہ جعلی اکاؤنٹس میں ہونے والی ٹرانزیکشن ایس ای سی پی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی،ایف آئی اے کو جعلی اکاونٹس پر معاونت کے لیئے ادارے کا ماہر فراہم کر دیا ہے جبکہ متعلقہ کمپنیوں کا ریکارڈ بھی فراہم کر دیا گیا ہے ۔ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کیا گیا ہے تاہم ایف آئی اے قواعد پر عملدرآمد سے صرف بے نامی کھاتوں میں موجود رقم ضبط ہوسکے گی جبکہ پاناما طرز پر جے آئی ٹی بنائے بغیر ملوث افراد کے خلاف سزائیں مشکل ہوجائیں گی۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/ خبر نگار خصوصی) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تفتیش کے لیے ایف آئی اے ٹیم کے سامنے پیشی سے انکار کرتے ہوئے نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔ دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے نے طلبی کے باوجود مسلسل عدم حاضری پر آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں پیر کو درخواست دائر کئے جانے کا امکان ہے جس میں مؤقف اختیار کیا جائے گا کہ سابق صدرآصف علی زرداری ،ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت دیگر کو عام انتخابات 2018کے انعقادکے بعد ایف آئی اے کے روبرو پیش ہونے کی مہلت دی تھی مگراب وہ پیش ہونے کی بجائے نئی تحقیقاتی ٹیم مقررکرنے اور مزید ریلیف مانگ رہے ہیں۔ایف آئی اے نے عدالت کے حکم پر معاملات کو مکمل کرناہے۔ اس کے لیے قانونی طورپر جن شخصیات کوپیش ہونا ہے۔ انہیں پیش ہونے کی ہدایات جاری کی جائیں۔اربوں روپے کی منی ٹریل بھی حاصل کرلی گئی ہے اس ٹریل کوثابت کرنے اور مزید تحقیقات کے لیے مذکورہ بالا افراد سے پوچھ گچھ لازمی ہے اس لیے انہیں ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ایف آئی اے حکام کے روبرو پیش ہوں اور تحقیقات میں تعاون کریں۔تحقیقاتی ٹیم اپنی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کریگی، جس میں اب تک کی تحقیقات میں ہونے والی پیشرفت سےمتعلق تفصیلات شامل ہونگی۔ ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ اسکینڈل میں مستقبل میں مزید اہم شخصیات کے نام سامنے آنے کا امکان ہے جبکہ کسی بھی قانونی کارروائی سے قبل سپریم کورٹ سے احکامات لینے کا مقصد مستقل میں تحقیقات میں مداخلت اور دباؤکو روکنا ہے۔واضح رہے کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ سے متعلق معاملے کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو ہفتے کو پھر بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا تھا تاہم دونوں رہنما پیش نہ ہوئے، دونوں شخصیات کے مشترکہ وکیل فاروق ایچ نائیک کے معاون ایف آئی اے حکام کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے حکام کو آصف زرداری اور فریال تالپور کی مصروفیات سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن میں اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کا آج آخری روز ہے اس لئے آصف زرداری نواب شاہ جب کہ فریال تالپور اس وقت لاڑکانہ میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایف آئی اے کے روبرو پیش نہیں ہوسکتے۔ بعد ازاں انہوں نے الگ سے دائر درخواست میں ایف آئی اے سے معاملے کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ کی تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا۔ درخواست میں فاروق نائیک نے مؤقف اختیار کیا کہ فریال تالپور ایف آئی اے سے مکمل تعاون کرنا چاہتی ہیں لیکن جے آئی ٹی کے سربراہ پر انہیں اعتماد نہیں اس لئے نئی جے آئی ٹی تشکیل دی جائے، دریں اثنا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نائیک نے کہاکہ 2005 میں آصف زرداری نے نجف مرزا کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، ان کی موجودگی میں صاف شفاف تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔سینئر پی پی رہنما اور قانون دان سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے روزنامہ ‘‘امت’’ سے گفتگو میں کہاکہ سپریم کورٹ نے انتخابات سے قبل سماعت میں واضح کردیا تھا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور ملزمان نہیں ہیں۔ ان کے نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیے جائیں، تو پھر وفاقی تحقیقاتی ادارہ کیسے ان کوطلب کرنے کااختیار رکھتا ہے، اسے پہلے سپریم کورٹ سے اجازت لینا ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کوسب سے زیادہ سیاسی انتقام کانشانہ بنایا گیا، پھر بھی ہم نے ہر جگہ پیش ہو کراپنی بے گناہی ثابت کی اور اب بھی ثابت کردیں گے۔ ہم قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭