مقبوضہ کشمیر کے دو بڑے اخبار مودی حکومت کا ٹارگٹ بن گئے

0

امت رپورٹ
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آزادیٔ صحافت کا گلا گھونٹنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ مقبوضہ وادی کے دو بڑے اخبارات مودی حکومت کا ٹارگٹ بن گئے ہیں۔ ’’گریٹر کشمیر‘‘ اور ’’کشمیر ریڈر‘‘ کے صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جانے لگے۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر کے اخبارات کے اشتہارات پہلے ہی بند کئے جا چکے ہیں۔ اب متعدد کے واجبات روک لئے گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے صحافتی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بھارتی حکومت نے اپنے تیروں کا رخ صحافت کی جانب بھی کر دیا ہے۔ ایک طرف جہاں بھارتی فورسز کشمیر بھر میں آپریشن اور کریک ڈائون کر رہی ہیں۔ وہیں بھارتی افواج کے ظلم و ستم کو اجاگر کرنے والے اخبارات کو مودی حکومت نے ٹارگٹ بنالیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اخبارات کو اشتہارات تو پہلے ہی بند کر دیئے گئے تھے۔ اب اخبارات کے صحافیوں کے خلاف مقدمات بھی قائم کئے جانے لگے ہیں۔ کئی صحافیوں اور اخبارات مالکان کو نہ صرف یہ کہ دھمکیاں دی گئی ہیں، بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔بالخصوص دو بڑے اخبارات ’’گریٹر کشمیر‘‘ اور ’’کشمیر ریڈر‘‘ خاص ہدف بنے ہوئے ہیں۔ صحافتی حلقوں کے مطابق اس صورتحال پر صحافیوں کی بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی متوجہ کیا جا رہا ہے۔
ادھر بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے اخبارات میں جہاں خبریں اشتہارات میں گم ہیں۔ وہیں مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے کئی اخبارات نے سادہ صفحہ شائع کیا۔ احتجاج کا یہ اظہار ایک درجن سے زائد اخبارات نے حکومتی فیصلے کے خلاف اپنایا۔ جس میں کشمیر کے دو اہم اخبارات ’’گریٹر کشمیر‘‘ اور ’’کشمیر ریڈر‘‘ کو اشتہارات نہ دیئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق اسے کشمیر ایڈیٹرز گلڈ کے رکن اور ’’کشمیر مرر‘‘ کے مدیر بشیر منظر نے بتایا کہ ’’ہم نے دو بہت زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات کو اشتہار بند کرنے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ اشتہارات بند کرنے کی وجوہات جاننے کی ہم نے بہت کوششیں کیں۔ لیکن ابھی تک حکومت نے ہمیں جواب فراہم نہیں کیا ہے۔ اس لیے ہمیں احتجاج کے طور پر مجبوراً پہلا صفحہ خالی شائع کرنا پڑا‘‘۔ ایک درجن سے زائد اخبارات کے پہلے صفحے پر صرف دو یا تین سطر کا احتجاجی جملہ شائع ہوا تھا۔ جس میں لکھا گیا تھا ’’دو انگریزی روزنامے گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈر کو بلاوجہ سرکاری اشتہارات روکنے کے خلاف احتجاج‘‘۔ واضح رہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کا یہ طریقہ انوکھا نہیں۔ اس سے قبل ایک معروف ٹی وی چینل نے احتجاج کرتے ہوئے بغیر کسی تصویر کے تاریکی میں صرف آواز کے سہارے پورے ایک گھنٹے کا پروگرام پیش کیا تھا۔ ’’امت‘‘ کو سری نگر سے دستیاب اطلاعات کے مطابق کشمیر ایڈیٹر گلڈز نے کشمیر کے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا اور پریس کونسل آف انڈیا اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ دوسری جانب مودی حکومت کے اس اقدام پر اس وقت پورے بھارت میں احتجاج جاری ہے۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ’’وادی (کشمیر) کے ایک واقعے کو باہر کوئی کوریج نہیں ملی۔ حکومت وادی کے اخباروں کو اشتہارات نہ دے کر میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مرکز اور ریاست جلد ہی ریاست کے چوتھے ستون کو خاموش کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لیں گے‘‘۔ جبکہ پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’’گریٹر کشمیر جموں کشمیر کے مقبول ترین اخباروں میں شامل ہے۔ اس کو اشتہار نہ دینے کے فیصلے کو پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے متعلق ان کے رویے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یا تو ان کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان کی تعریف کریں یا پھر اس کا خمیازہ بھگتیں‘‘۔ ایک صارف عمران نبی ڈار کے ایک ٹویٹ کو عمر عبداللہ نے دوبارہ ٹویٹ کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ ’’کشمیر کے اخباروں کو اشتہار دینا بند کرنا، مذہبی رہنماؤں کو دہلی بلانا، اسمبلی انتخابات کو روکے رکھنا، عوام کی حقیقی خواہشات کا منہ بند کرنا، کیا انہیں اقدامات سے حکومت ہند کشمیر میں امن اور معمول کے حالات بحال کرنا چاہتی ہے؟‘‘۔ اس سے قبل انڈیا کے معروف صحافی اور عام آدمی پارٹی کے سابق رکن آسوتوش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’’سخت مقابلہ ہے مودی اور کجریوال میں۔ انتخابات سے قبل عوام کے خزانے کا کتنا بے جا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کجریوال کے پانچ مکمل صفحہ اشتہارات، تو مودی جی کے مجموعی طور پر آٹھ اور نو۔ انتخابات کا اعلان ہونا ہے، اس لیے کل یہ مقابلہ مزید سخت ہوگا‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More