علی مسعود اعظمی
نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر عیسائی دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کے حملوں کے بعد درجنوں نمازی لاپتا ہیں۔ لواحقین اسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر لگا کر ہلکان ہوگئے ہیں۔ کیوی حکومت اور سیکورٹی حکام تاحال سراغ لگانے میں ناکام ہیں اور لواحقین کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے رہے۔ دوسری جانب لاپتا نمازیوں کے اہل خانہ میں یہ خدشہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ مساجد پر حملہ آور صلیبی دہشت گرد کے ساتھیوں نے ان نمازیوں کو اغوا کرلیا ہے اور اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں۔ کرائسٹ چرچ مساجد پر حملوں کے بعد لاپتا بنگلہ دیشی، پاکستانی، مصری، کویتی، بھارتی، شامی، انڈونیشی، ملائیشی اور افغان مسلمانوں کے لواحقین نے بتایا ہے کہ ان کے پیارے کرائسٹ چرچ مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے گئے تھے لیکن حملے کے بعد سے لاپتا ہوچکے ہیں۔ جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والی ایک 25 سالہ خاتون مسز علی باوا کے بارے میں نیوزی لینڈ حکا م کا دعویٰ ہے کہ وہ زخمی حالت میں اسپتال میں لائی گئی تھیں۔ لیکن اب حکام کا کہنا ہے کہ وہ مسز علی باوا نہیں بلکہ کوئی دوسری خاتون تھیں۔ مسز علی باوا کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ اب تک ان کی کوئی خیر خبر نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ مقامی میڈیا کے مطابق اٹھائیس سالہ وورا رمیز نامی نوجوان بھی مسجد النور میں حملوں کے بعد غائب ہے جس کا اسپتال حکام اور ایمرجنسی عملہ کچھ بھی نہیں بتا سکے ہیں کہ رمیز کہاں اور کس حال میں ہے؟ مقامی مسلمان کمیونٹی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاپتا نمازی حملہ آور کے ساتھیوں کے ہاتھوں اغواکرلئے گئے ہیں اور انہیں بھی قتل کردیا جائے گا۔ اس وجہ سے ان کے اہل خانہ اور متعلقہ سفارت خانوں کے حکام سخت پریشان اور ان کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے تیس سالہ بھارتی شہری فرہاج احسن بھی اب تک غائب ہیں۔ کرائسٹ چرچ میں مقیم ان کی اہلیہ انشا عزیز کا کہنا ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کیلئے گئے تھے اور حملوں کے بعد سے لاپتا ہیں۔ فرہاج احسن کی ایک تین سالہ بیٹی اور سات ماہ کا بیٹا ہے۔ کرائسٹ چرچ کی پاکستانی کمیونٹی نے بتایا ہے کہ متعدد پاکستانی اور دیگر ممالک کے مسلمان تاحال لاپتا ہیں اور اسپتال سمیت متعلقہ حکام ان کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ درجنوں لاپتا مسلمانوں میں چھتیس سالہ انڈونیشی حسین العمری بھی شامل ہیں۔ ان کے والدین جنہ عزت العمری اور حازم العمری نے بتایا ہے کہ ان کا بیٹا جمعہ کی نماز النور مسجد میں ہی ادا کرتا تھا اور سانحہ کے بعد اس کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ متعلقہ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ اور اسپتال کا عملہ بھی لا علمی ظاہر کررہا ہے، جس سے ان وسوسوں کو تقویت ملی ہے کہ حملہ آوروں کی دوسری ٹیم نے ان کا اغوا کرلیا ہے اور ان کو بعد ازاں قتل کردیا جائے گا۔ گم شدہ مسلمانوں میں سینتیس سالہ مصری نوجوان اسامہ عدنان بھی شامل ہیں۔ النور مسجد پر حملے کے بعد غائب ہوجانے والے نمازیوں میں کامل درویش بھی شامل ہیں، جو اپنے بھائی زہیر درویش کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے تشریف لائے تھے، لیکن حملوں کے بعد ان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ کامل درویش کے خاندان میں بیوی اور تین بچے شامل ہیں۔ کیوی میڈیا کے مطابق کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہارون محمود بھی حملوں کے بعد لا پتا ہیں، ان کے لواحقین میں بیوی اور دو بچے ہیں۔ آخری خبریں آنے تک ڈاکٹر ہارون محمود کی زندگی یا شہادت کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔ فلسطینی مسلمان علی علما دانی بھی لاپتا بتائے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں فلسطینی سفارتی حکام اور مقامی فلسطینی کمیونٹی نے اعلانات کرکے ان کی تلاش کیلئے اپیل کی ہے۔ لا پتا افراد میں اکہتر سالہ افغان بزرگ حاجی دائود نبی بھی شامل ہیں۔ ان کے اہل خانہ سمیت افغان اور مسلم کمیونٹی کے اراکین نے تصدیق کی ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد النور میں موجود تھے۔ لیکن اب تک ان کی تو لاش مل سکی ہے اور نہ ہی وہ زخمیوں کے وارڈز میں پائے گئے ہیں۔ لالک عبد الحمید بھی لا پتا نمازیوں میں شامل ہیں۔ ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کی تلاش تاحال جاری ہے۔
دوسری جانب النور مسجد میں مسلمانوں کا ا یک پورا خاندان عیسائی دہشت گرد کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھا۔ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے آنے والے دو میاں بیوی ان کے دو بچے اور
والد پر مشتمل پورا گھرانہ شہید ہوگیا ہے۔ شہید گھرانے کا سب سے ننھا فرد تین سالہ مرشد ابراہیم ہے جس کو کلیسائی دہشت گرد نے چار گولیاں ماریں اور شہید کردیا۔ مرشد ابراہیم کے بڑے بھائی اور اس سانحہ میں زندہ بچ جانے والے عابدی ابراہیم نے بتایا ہے کہ وہ بھی پورے خاندان کے ساتھ مسجد النور میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے پہنچے تھے لیکن پہلے باتھ روم میں وضوکیلئے جانے کی وجہ سے وہ قاتل کی کارروائی سے بچ گئے۔ عیسائی دہشت گرد کے حملے میں شہید ہونے والا ایک بچہ عبدالٰہی دیری بھی شامل ہے۔ اس کی عمر بھی چار برس تھی لیکن سفاک قاتل نے اس کو بھی کئی گولیاں مار کر شہید کرڈالا۔ صومالیہ سے تعلق رکھنے والے اس ننھے شہید کا اسپتال میں آخری دیدار کرنے والے اس کے داداعبد الرحمان ہاشی کا کہنا تھا کہ ننھے شہید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ عبد الٰہی کو ہفتہ کو تجہیز و تکفین کے بعد دفنا دیا گیا ہے ۔مسجد النور میں نمازیوں کے قتل عام کی عینی شاہد ننھی طالبہ حبا سامی نے بتایا ہے کہ اس کے خاندان کے 5 افراد اس سانحہ میں شہید ہوئے ہیں۔ ان میں اس کا 12سالہ کزن سید مائل بھی شامل تھا۔ چیس میئر ہائی اسکول کا ذہین ترین طالبعلم سید مائل بہت اچھے مزاج کا تھا اور نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے ذوق و شوق سے آتا تھا۔ النور مسجد کے ہال میں دائیں جانب سید مائل کا خون میں لت پت لاشہ موجود تھا جس کو مقامی اسپتال میں پوسٹ مارٹم کیلئے بھیجا گیا۔ ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ سید مائل کے جسم پر نصف درجن گولیوں کے زخم موجود تھے جو پوائنٹ بلینک رینج سے چلائی گئی تھیں۔ سید مائل کے والدکو بھی ایک گولی لگی ہے لیکن ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو با پ بیٹے نعیم راشد اور طلحہ نعیم بھی شہدائے النور کے قافلہ میں شامل ہیں۔ نعیم راشد نے حملہ آور کو گرفت میں لے کر بندوق چھیننے اور نمازیوں کی جانیں بچانے کی کوششیں کی تھیں لیکن حملہ آور نے دونوں باپ بیٹوں کو گولیوں کی بوچھاڑ کرکے شہید کردیا۔ پاکستان میں موجود ان کے بہنوئی ڈاکٹر خورشید عالم نے شہادتوں کی تصدیق کردی ہے اور بتایا ہے کہ ان کی تدفین کرائسٹ چرچ میں کی جائے گی۔ شامی باشندے علی عاقل نے بتایا ہے کہ عیسائی دہشت گرد نے مسجد النور میں دو شامی با پ بیٹوں خالد مصطفی اور ان کے 12سالہ صاحبزادے علی حمزہ کو کو بھی شہید کیا۔ دونوں باپ بیٹے مسجد جمعہ کو نماز کی ادائیگی سے قبل ’’تحیۃ المسجد‘‘ کی نماز ادا کررہے تھے کہ شہید کردئے گئے۔ 33 سالہ کویتی فٹبالر عطا ایلیان بھی شدید زخمیوں میں شامل ہیں۔ ان کا آپریشن کیا گیا ہے اور حالت خطرے سے باہر ہے۔ شہدائے کرام میں شامل بنگلہ دیش کی بیالیس سالہ حسن آرا پروین اپنے معذور شوہر فرید الدین کو وہیل چیئر پر بچانے کی کوشش میں شہید کردی گئیں۔ سینتالیس سالہ ایم عمران خان کا تعلق بھارت سے تھا جو ایک ریستوران چلاتے تھے۔ شہید کئے جانے والوں میں ایک فلسطینی ڈاکٹر امجد حامد بھی شامل ہیں۔ مسلم ایسوسی ایشن کرائسٹ چرچ کے سابق جنرل سیکریٹری عبد الفتاح قاسم بھی شہیدوں کے قافلے میں شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی 65 سالہ نو مسلم خاتون لنڈا آرم اسٹرونگ بھی اس سانحہ میں شہید ہوئی ہیں۔ شہیدوں کی فہرست میں ایک نام اشرف علی کا بھی ہے جن کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ ان کا تعلق پاکستان یا بھارت سے ہے۔
ادھرکیوی جریدے ہیرالڈ نے بتایا ہے کہ عیسائی دہشت گرد نے اپنا نفرت انگیز منشور 72 ہائی پروفائل شخصیات کو ای میل اور ہارڈ کاپی میل کیا تھا جس میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سمیت پارلیمان کے اسپیکر، متعدد اراکین اسمبلی اور پولیس کمشنر شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ ہیرالڈ سے گفتگو میں کیوی وزیر اعظم جیسیکا آرڈرنز کے آفس نے کلیسائی جنگجو کا منشور ملنے کی تصدیق کی ہے۔ لیکن دعویٰ کیا ہے کہ ان کو قاتل کی جانب سے بھیجے جانے والے منشور کی کاپی حملے سے محض دس منٹ پہلے ملی تھی۔
ادھر امریکا کی نیویارک یونیورسٹی میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی بیٹہ چیلسی کلنٹن کو مسلمان طلبہ نے ایک پروگرام میں تقریر نہیں کرنے دی اور ان کو کرائسٹ چرچ حملوں کا براہ راست ذمہ دار ٹھیرایا۔ چیلسی کلنٹن نے جب مسلمان طلبہ سے اس سلسلہ میں استفسار کیا کہ ان کو مساجد حملوں کا کیوں ذمہ دار ٹھیرایا جارہا ہے؟ تو ایک مسلمان طالبہ نے انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے اور ان کی والدہ نے چند روز قبل مسلمان ڈیمو کریٹس رکن الہان عمر کو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد نسل پرست امریکیوں نے الہان کو نہ صرف دہشت گرد قرار دیا تھا، بلکہ ان کو قتل کرنے کی بھی دھمکیاں دی تھیں۔ اس مکالمہ کے بعد چیلسی کلنٹن لاجواب ہوکر واپس چلی گئیں اور تقریر نہیں کرسکیں۔
٭٭٭٭٭