احمد خلیل جازم
ضلع اٹک کے ایک شہر فتح جنگ کے پرانے شہر میں لگ بھگ چار سو برس قدیم جامع مسجد اندرکوٹ واقع ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مغلوں کے دور میں بنائی گئی۔ یہ مسجد کس نے بنوائی؟ اس بارے میں مختلف لوگوں کی رائے بھی مختلف ہے۔ لیکن ایک بات پر سب تحقیق نگار متفق ہیں کہ یہ مسجد خاندان غلاماں کے دور میں خداداد خان، جس کا لقب فتح جنگ تھا۔ اس کی اولاد میں سے کسی نے بنوائی۔ فتح جنگ بھی اسی شخص کے نام سے وجود میں آیا۔ موجودہ عہد میں فتح جنگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ جو پنڈی گھیب روڈ اور اس کے پار ہے، وہ نیا فتح جنگ ہے۔ جبکہ کرم روڈ جسے تحصیل روڈ بھی کہا جاتا ہے، یہ سڑک پرانے فتح جنگ کے قدیم ترین ’محلہ مسجد میاں نور والا‘ تک جا نکلتی ہے۔ جہاں آج بھی کچھ تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ یہ مسجد موجود ہے۔ اگرچہ اس کا بیرونی حصہ نو تعمیر ہے۔ لیکن مسجد کا اندرونی ہال اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اس مذہبی اثاثے پر جو مینا کاری اور کاشی کاری کی گئی تھی۔ اس پر سادہ لوح لوگوں نے پینٹ کر کے اس کی اہمیت کو اگرچہ کم کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ایک گنبد پر مشتمل یہ مسجد پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔
فتح جنگ میں حافظ فصیح الدین محمد ناصر، جو ٹیکسلا یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں، ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیں مسجد تک لے جانے کا ذمہ پہلے ہی لے چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف ہماری مسجد تک رہنمائی کی۔ بلکہ ایک بزرگ ڈاکٹر محمد جہانگیر سے بھی ملوایا۔ دونوں حضرات امت ٹیم کو محلہ مسجد میاں نور والی سے لے جاکر محلہ اندر کوٹ لے گئے، جہاں یہ تاریخی ورثہ موجود ہے۔ ڈاکٹر محمد جہانگیر جو قدیم فتح جنگ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور عرصہ دراز سے تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جتنی بھی قدیم مساجد ہیں، ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اس مسجد میں بھی پچیس برس قبل تبدیلی لائی گئی۔ اس کا بیرونی حصہ تعمیر کیا گیا۔ پہلے یہ صرف ایک ہال پر مبنی تھی۔ اس کے بعد اس کا کسی دور میں صحن بنایا گیا، اور اب اس کی بیرونی تعمیر نو کی گئی ہے۔ لیکن اندرونی ہال میں قدیم اسٹرکچر بہرحال موجود و محفوظ ہے۔ اس مسجد کی تعمیر بھی مغلیہ طرز پر ہی ہے۔ اب جو اندورنی ہال کو نقصان پہنچا ہے۔ وہ صرف اس کو اندر پینٹ کرنے سے ہوا ہے۔ کیونکہ اس کی دیواروں پر کافی تحریریں لکھی ہوئی تھیں، جو پینٹ سے ختم ہوگئی ہیں‘‘۔ ڈاکٹر جہانگیر گفتگوکرتے ہوئے ہمیں مسجد کے بیرونی دروازے پر لے آئے۔ چودہ سیڑھیاں عبور کرکے مسجد کے صحن میں پہنچے تو سامنے خوبصورت لیکن جدید مسجد موجود تھی۔ بظاہر کہیں سے بھی یہ مسجد قدیم دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ قدیم ہال کی بابت بات کی گئی اور ہم نے مسجد کے اندرونی ہال کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر اندر داخل ہونے کے لیے فصیح کی جانب دیکھا تو اس نے کہا۔ ’’مسجد کھلی ہوئی ہے۔ اندر جایا جا سکتا ہے‘‘۔ اندرونی ہال کا ایک ہی دروازہ ہے۔ جبکہ اس کے دائیں بائیں شیشے کی دو کھڑکیاں ہیں۔ لیکن غور کرنے پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ یہ بالکل ویسے ہی چھوٹے دروازے ہیں۔ جیسے ہم نے کری شہر کی قدیم مسجد میں دیکھے تھے۔ چونکہ اب ان پر جدید طرز کے شیشے لگا دئیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ خوبصورت کھڑکیاں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ شیشے کھل جاتے ہیں اور ایک پانچ فٹ کا آدمی سر جھکا کر ان میں سے باہر آ سکتا ہے۔ جیسے ہی مسجد کے مرکزی دروازے سے قدیم ہال میں داخل ہوئے۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے چار سو برس پرانے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ مسجد کے بیرونی اور اندرونی منظر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگرچہ اندرونی ہال پر پینٹ کر دیا گیا ہے۔ لیکن اندرونی ہال کے در و یوار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مجھے غور سے دیکھو۔ وقت بوڑھا ہوگیا لیکن مجھ پر اس کے سرد و گرم کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ مضبوط پتھروں اور مسالے سے بنی جامع مسجد اندر کوٹ ایک گنبد پر مشتمل ہے۔
جامع مسجد اندر کوٹ کی طرز تعمیر کے حوالے سے ڈاکٹر جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’’اس مسجد کے اندرونی ہال پر پینٹ کر کے فریسکو (کاشی کاری) کے کام کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فارسی میں لکھی ہوئی طالبعلموںکی تحریروں کو بھی مٹا دیا گیا ہے‘‘۔ ڈاکٹر جہانگیر کی گفتگو کو روک کر ان سے سوال کیا کہ اس کا سن تعمیر کیا ہے۔ ذرا اس کے بارے میں تفصیل سے بتائیے۔ اس پر ڈاکٹر جہانگیر نے کہا کہ ’’میں اسی طرف آرہا ہوں۔ مسجد کی تعمیرکب ہوئی، اس سوال سے قبل آپ کو فتح جنگ کی تاریخ پر ہلکی سے نگاہ دوڑانے کی ضرورت ہے۔ فتح جنگ کے تاریخ نویس خان یونس خان نے اس حوالے سے کافی لکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس جگہ یہ مسجد تعمیرکی گئی ہے، یہ ہندوئوں کا مقدس مقام تھا۔ اس مقام کو ’سندر راکھی‘ کہا جاتا تھا۔ بظاہر اس وقت تک مسلمان یہاں نہیں آئے تھے۔ مسلمانوںکی آمد تو گندھارا تہذیب کے بعد شروع ہوتی ہے، جب محمود غزنوی، شہاب الدین غوری کا دور آیا اور پھر سلاطین دہلی کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد کہیں مغلوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس جگہ پر کسی قسم کا مندر وغیرہ نہیں تھا۔ بلکہ صرف ان کا مقدس مقام تھا۔ یہ مقام شہر کا سب سے بلند ترین مقام بھی ہے، اور ہندو بھی اس جگہ کو بہت مقدس جانتے تھے۔ اس لیے کافی اہمیت کی حامل جگہ تھی۔ فتح جنگ میں کوئی نامور شخص نہیں آیا۔ جس طرح شیر شاہ سوری وغیرہ جیسے بادشاہوں کی اردگر آمد کے حوالے ملتے ہیں، فتح جنگ میں ایسا کوئی شہنشاہ نہیں آیا۔ اس علاقے کو کھٹڑ خاندان کے ایک شخص خدا داد خان جو کہ باغ نیلاب سے آیا تھا، اس نے آکر فتح کیا۔ اس کا لقب بھی فتح جنگ تھا۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام فتح جنگ پڑگیا۔ اس کا دور 1390ء یا اس سے پہلے کا ہے۔ وہ دور خلجیوں کے اختتام کا تھا۔ یعنی مغلوں کے آنے سے قبل یہاں مسلمان آباد ہوچکے تھے۔ اب یہ علاقہ یا محلہ اِندرکوٹ یا اَندرکوٹ کہلاتا ہے۔ اندر کوٹ کے لفظی معنی بڑے قلعے کے اندر چھوٹے قلعے کے ہیں۔ اسے کوئی اَندر کہتا ہے اور کوئی اِندر کوٹ کہتا ہے۔ خدا خبر اصل کیا ہے۔ اس حوالے سے معروف محقق آغا عبدالغفور نے بتایا تھا کہ قلعہ روہتاس میں بھی اندر کوٹ موجود تھا۔ ہر بڑے قلعے میں ایک اندر کوٹ یعنی چھوٹا قلعہ موجود ہوتا ہے۔ خداداد خان نے جب یہ علاقہ فتح کیا تو اس نے اسی محلے میں رہائش اختیار کی۔ جہاں وہ رہتا تھا، وہ مکان کافی عرصہ تک موجود رہا۔ بلکہ چونکہ ہم بھی اسی خاندان سے ہیں۔ میری پیدائش بھی اُسی قدیم پتھروں والے مکان میں ہوئی۔ اب وہ مکان ڈھے گیا ہے۔ رہی مسجد کی تعمیر تو یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مسجد کسی مغل یا تغلق نے نہیں بنوائی تھی۔ میں نے اس بارے میں کہیں نہیں پڑھا۔ نہ ہی سینہ بہ سینہ ایسی کوئی بات سنی کہ یہ مسجد کسی بادشاہ نے تعمیر کرائی۔ دراصل ہر دور کا ایک سیٹ پیٹرن ہوتا ہے۔ اسی طرز تعمیر پر مساجد اور دیگر اہم عمارتیں تعمیر کرائی جاتی ہیں۔ اب آپ دیکھیں کہ جیسے فیصل مسجد بنی ہے تو کئی شہروں میں اس کی نقول بنائی جا رہی ہیں۔ اسی ماڈل کو سامنے رکھا جارہا ہے۔ لیکن فیصل مسجد ایک ہی ہے۔ چاہے اس کی درجنوں نقول تیار ہوجائیں۔ یہ مسجد سلاطین دہلی (سلطنت دہلی 1206ء تا 1526ئ) کے پیٹرن کے دور کی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ایک گنبد پر مبنی ہے۔ اس میں کاشی کاری کا اسٹائل بھی سلاطین دہلی والا نہیں ہے۔ آپ دہلی میں قدیم عمارتیں دیکھیں تو سلاطین دہلی نے جو عمارتیں بنوائیں۔ ان میں اور مغلوں کی تعمیرات میں بہت فرق ہے۔ مغلوںکی عمارتیں دلہنوں کی طرح سجی ہوئی ہوتی ہیں۔ جبکہ سلاطین دہلی کی عمارتوں میں ایک دوسرے میں بھی فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آپ کوٹ فتح خان کی مسجد دیکھیں۔ وہ مغلیہ طرز کا شاہکار ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس مسجد کو کس نے تعمیر کرایا۔ تو آپ کوٹ فتح خان کی مسجد دیکھیں تو وہاں جو نواب تھے۔ انہوں نے اپنے قلعے کے ساتھ مسجد تعمیر کرائی۔ کئی جگہوں پر قدیم مساجد دیکھیں تو وہ ان نوابوں نے بنوائیں۔ جن کے نزدیک رہائشی قلعے تھے۔ اسی طرح اس مسجد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ خداداد خان نے نہیں، اس کی اولاد نے بنوائی تھی۔ اگر خداداد خان بنواتا تو پھر مسجد کا طرز تعمیر مغلوں کا نہیں بلکہ سلاطین دہلی والا ہوتا۔ جس میں نہ مینارکاری ہوتی اور نہ ہی بیل بوٹے۔ خداداد خان کی اولاد نے البتہ اسے مغلیہ دور میں تعمیر کرایا۔ یہاں ایک تحریر لکھی ہوئی تھی۔ وہ 1175 ہجری کی تھی۔ وہ کسی طالبعلم کی تحریر تھی۔ مسجد کے سنگ بنیاد کی تاریخ نہیں تھی۔ مسجد کی محراب کے اوپر جہاں خلفائے راشدین کا نام لکھا ہوا ہے۔ یہاں کسی دور میں مسجد کے معمار کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ معمار حسن ابدال سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا نام محمد علی تھا۔ یعنی یہ مسجد 1175 ہجری سے بھی پہلے کی تعمیر ہو چکی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭