امت رپورٹ
کرائسٹ چرچ میں عیسائی دہشت گرد کا نشانہ بننے والے نمازیوں کی شہادتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ جبکہ شہدا کے جسد خاکی کی حوالگی میں تاخیر پر متاثرہ خاندانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ ادھر النور مسجد میں نمازیوں کی جان بچانے والے ہیرو نعیم رشید کے بعد لین ووڈ مسجد میں اسی نوعیت کی جرات دکھانے والے ایک اور جانباز کا نام سامنے آیا ہے۔ عبدالعزیز نامی اس بہادر افغان شہری کے پوری دنیا میں چرچے ہیں۔
کیوی پولیس نے اتوار کو تصدیق کی ہے کہ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہدا کی تعداد پچاس تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں دو بچے شامل ہیں۔ شہید نمازیوں میں 3 سال کے بچے سے لے کے 77 برس کا بزرگ بھی ہے۔ جبکہ 36 زخمی تاحال آکلینڈ اور کرائسٹ چرچ کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ان زخمیوں میں سے 12 کی حالت تاحال تشویشناک ہے۔ جس کے سبب اسپتال انتظامیہ کو شہادتیں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ انتہائی نگہداشت وارڈ میں زندگی کی جنگ لڑنے والے زخمیوں میں چار سالہ بچی شامل ہے۔
شہدا کی شناخت کا کام اتوار کو بھی سارا دن جاری رہا۔ اس شناختی عمل میں 70 سے زائد تربیت یافتہ افسر مصروف ہیں۔ جبکہ پراسس تیز کرنے کے لئے نیوزی لینڈ کے دیگر شہروں سے بھی مزید 20 تربیت یافتہ افسر بلالئے گئے ہیں۔ بز فیڈ نیوز کے بقول لاشوں کی شناخت کے عمل میں تاخیر اور معلومات کے فقدان کے سبب متاثرہ فیملیوں کے متعدد ارکان پریشان اور مایوس ہیں۔ اس کا اظہار انہوں نے اخبار کے رپورٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ زیادہ تر کا کہنا ہے کہ انہیں اس پر مایوسی ہے کہ وہ اسلامی طریقہ کار کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر اپنے پیاروں کی تدفین کرنے سے قاصر رہے۔ متاثرہ فیملیوں کے اس شکوے پر کیوی ڈپٹی پولیس کمشنر ویلی ہوماہا کا کہنا تھا کہ ’’شہدا کی شناخت کا عمل چونکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کیا جارہا ہے۔ اس کے سبب شناخت میں تاخیر ہوئی۔ ہر جسد خاکی کا سی ٹی اسکین کرایا جارہا ہے۔ فنگر پرنٹس لئے جارہے ہیں۔ تصاویر اتاری جارہی ہیں۔ دانتوں کے ریکارڈ کا معائنہ اور پوسٹ مارٹم کیا جارہا ہے تاکہ ہر لاش کی درست شناخت کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔ ڈپٹی پولیس کمشنر کے بقول حکام نے تاخیر کی وجوہات سے آگاہ کرنے کے لئے مسلم کمیونٹی کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ہماری بریفنگ پر وہ مطمئن ہیں۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز کرائسٹ چرچ میں ہونے والے عیسائی دہشت گردی کے واقعے کو تین روز ہو چکے ہیں۔ تاہم اتوار کی شام ان سطور کے لکھے جانے تک ایک بھی جسد خاکی متعلقہ خاندان کے حوالے نہیں کیا جا سکا تھا۔ کیوی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن کا کہنا تھا کہ رات تک پہلی لاش متاثرہ فیملی کے حوالے کئے جانے کی توقع ہے۔ جبکہ تمام لاشوں کی حوالگی بدھ کے روز تک مکمل ہوجائے گی۔
دوسری جانب جس طرح کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں پاکستانی شہری نعیم رشید نے اپنی جان پر کھیل کر متعدد نمازیوں کو بچایا تھا۔ اسی طرح لینڈ ووڈ مسجد پر عیسائی دہشت گرد کے حملے کے دوران ایک بہادر افغان شہری عبدالعزیز نے بھی متعدد نمازیوں کی جان بچائی۔ واضح رہے کہ عیسائی دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ کی فائرنگ سے لینڈ ووڈ کی مسجد میں سات نمازیوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ عیسائی دہشت گرد نے پہلے النور مسجد میں کارروائی کی تھی اور اس کے بعد وہ لین ووڈ مسجد پہنچا تھا۔ جب عیسائی دہشت گرد لینڈ ووڈ مسجد کے نمازیوں پر فائرنگ کر رہا تھا تو اس کی آواز عبدالعزیز نے بھی سنی۔ اس وقت مسجد میں عبدالعزیز کے بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے اور تمام نمازی سجدے کی حالت میں تھے۔ برینٹن ٹارنٹ ابھی مسجد کے گیٹ پر کھڑے ہوکر اندر موجود نمازیوں پر فائرنگ کر رہا تھا۔ عیسائی دہشت گرد نے اپنی ایک گن قریب پھینک دی تھی اور دوسری گن سے گولیاں چلارہا تھا۔ فائرنگ کی آواز سن کر عبدالعزیز مسجد کے گیٹ کی طرف بڑھا اور اس نے خالی گن اٹھاکر برینٹن ٹارنٹ کو للکارا۔ موقع پر موجود عینی شاہدین کے بقول عبدالعزیز کے ہاتھ میں خالی گن دیکھ کر ٹارنٹ خوفزدہ ہوگیا اور فائرنگ کا عمل ترک کرکے اپنی کار کی طرف بھاگا۔ اس دوران عبدالعزیز نے قریب پڑے پتھر اٹھاکر اسے مارے۔ پتھروں سے ٹارنٹ تو محفوظ رہا۔ لیکن اس کی کار کے شیشے ٹوٹ گئے۔ بعد ازاں خوفزدہ عیسائی دہشت گرد عجلت میں اپنی کار میں بیٹھ کر فرار ہوگیا اور آگے جاکر کیوی پولیس اہلکاروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ عبدالعزیز کئی برس پہلے افغانستان سے ہجرت کرکے اپنے بچوں کے ہمراہ سڈنی (آسٹریلیا) پہنچے تھے اور مہاجر کی حیثیت سے پناہ حاصل کی تھی۔ چند سال قبل ہی عبدالعزیز سڈنی سے کرائسٹ چرچ (نیوزی لینڈ) منتقل ہوئے تھے۔
نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعے میں کراچی کے رہائشی ستائیس سالہ سید اریب شاہ بھی شہید ہوئے۔ سید اریب شاہ فیڈرل بی ایریا کے رہائشی تھے۔ کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے علاقے کے نجی اسکول سے حاصل کی۔ بعد ازاں اریب نے تابانی اسکول آف اکائونٹینسی سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جس کے بعد مقامی فرموں میں انٹرشپ کرنے کے بعد چارٹرڈ اکائونٹنٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ ایک عرصے تک فری لانس خدمات انجام دیتے رہے۔ تقریباً تین برس قبل ایک بین الاقوامی کمپنی پی ڈبلیو سی نیوزی لینڈ میں ملازمت اختیار کرلی۔ کمپنی کی انتظامیہ نے بھی اریب شاہ کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
سید اریب شاہ کے استاد سید واصف شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ اریب بچپن ہی سے انتہائی ذہین اور لائق طالب علم تھا۔ وہ ایک گول مٹول بچہ تھا۔ جب اس کو چھیڑتے تو بالکل سرخ ہوجایا کرتا تھا‘‘۔ اریب کے بڑے چچا زاد بھائی عبدالرحیم شاہ بھی اپنے کزن کی شہادت پر افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم کسی بھی طور پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں کہ سید اریب شاہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ جب سے یہ اطلاع پہنچی ہے، اس وقت سے اریب کی مختلف سرگرمیوں کی فلم آنکھوں کے سامنے چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی وہ سامنے آئے گا اور ہم سے تقاضا کرے گا کہ چلو مجھے خان فاسٹ فوڈ پر لے جا کر زنگر کھلاؤ اور پھر بیٹھ کر مستقبل کے اپنے منصوبے میرے ساتھ شیئر کرے گا‘‘۔ عبدالرحیم شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’اریب انتہائی ذمہ دار دوست، بھائی اور بیٹا تھا۔ ہم سب کزنر کے درمیان ہمارے بزرگوں نے صحت مند مقابلہ کروا رکھا تھا۔ جس میں وہ اچھے نمبر لینے والے کو تحائف وغیرہ لے کر دیتے تھے۔ اسکول کے زمانے میں میرے نمبر اچھے آتے تھے۔ مگر جب کالج کا دور شروع ہوا تو اریب ہم سب سے آگے نکل گیا تھا۔ صورتحال یہ ہوتی تھی کہ جب رزلٹ آتا تو وہ ہمارا مذاق اڑاتا تو ہم اس کو اپنے پرانے رزلٹ کارڈ دکھا رہے ہوتے تھے، جس پر پیار بھری گرما گرمی ہوجاتی۔ ایک دوسرے پر چٹکلے کسے جاتے اور اس محفل کا اختتام کسی فاسٹ فوڈ ہوٹل پر ہوتا۔ کیونکہ اریب کو فاسٹ فوڈ بہت پسند تھے۔ جب اس نے چارٹر اکائونٹنٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ایسا کر لو گے؟ تو اس نے جواب دیا ہاں کر لوں گا اور پھر اس نے شاندار نمبروں سے ایک کامیاب چارٹرڈ اکائوٹنٹ بن کر دکھایا‘‘۔
سید اریب شاہ کے ماموں زاد بھائی سید وصی شاہ اس کے ہم عمر ہیں۔ وصی شاہ کے مطابق اریب شاہ جدید لباس کا انتہائی شوقین تھا۔ عملی زندگی سے پہلے وہ لاابالیوں جیسی پینٹ اور قمیض پسند کرتا تھا۔ مگر عملی زندگی میں جانے کے بعد اس نے اپنے لباس میں تبدیلی کی تھی۔ گزشتہ سال مئی میں جب وہ نیوزی لینڈ سے آیا تو اس نے بڑے شوق سے چاندی کی چین بنوائی تھی، جس کو وہ ہر وقت گلے میں پہنے رکھتا تھا اور جاتے وقت گھر پر چھوڑ گیا تھا کہ جب دوبارہ آئوں گا تو پھر استعمال کروں گا‘‘۔ سید وصی شاہ نے بتایا کہ ’’اریب شاہ انتہائی نرم دل کا مالک اور خلوص سے بھرپور تھا۔ بچپن کی بات ہے کہ ایک دفعہ عیدالضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہوئے اریب کی انگلی کٹ گئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پر وہ بے انتہا رویا تھا، جس پر ہم سب بہت خفا ہوئے تھے‘‘۔ سید عبدالرحیم شاہ اور وصی شاہ کے مطابق خاندان میں اب سید اریب شاہ کی شادی کی باتیں چل رہی تھیں۔ گزشتہ سال جب وہ آیا تو اس وقت سب کی خواہش تھی کہ اس کی شادی کردی جائے۔ مگر اس نے خاندان والوں سے کچھ اور وقت مانگا تھا۔ خیال یہ ہی تھا کہ جب وہ اس سال دوبارہ آئے گا تو اس کی شادی کردی جائے گی۔ جب سے اس کی شہادت کی اطلاع ملی ہے اس وقت سے اریب شاہ کے والدین اور بہن کی حالت غیر ہوچکی ہے۔
٭٭٭٭٭