اقبال اعوان
کراچی میں قبرستانوں سے انسانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر عاملوں کو فروخت کرنے والی مافیا سرگرم ہے۔ مضافاتی بستیوں اور کچی آبادیوں میں واقع قبرستانوں میں 5 گروپ عرصہ دراز سے یہ گھنائونا دھندا کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کے آلہ کاروں میں گورکن بھی شامل ہیں، جو چند ہزار روپے کے عوض قبروں سے مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر فروخت کردیتے ہیں۔ گورکن عاملوں کو خالی قبریں فروخت کر کے الگ رقم کماتے ہیں۔ جن کے اندر بیٹھ کر عامل اور سفلی جادوگر عملیات کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قبر یا مردے کی بے حرمتی کے جرم کی سزا انتہائی کم ہے۔ جبکہ قبرستانوں کی نگرانی کا کوئی نظام ہے، نہ ایسے مکرہ دھندے کیخلاف سخت کاررائی کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ مافیا مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ذرائع کے بقول کورنگی چکرا گوٹھ قبرستان مردوں کی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کی فروخت کا گڑھ ہے اور یہاں سے کئی لوگ پکڑے بھی جاچکے ہیں۔ دو روز قبل علاقے کے یوسی چیئرمین اور کونسلر نے اس حوالے متعدد شکایات ملنے کے بعد قبرستان میں جاکر صورتحال کا جائزہ لیا تو وہاں موجود افراد نے اپنے پیاروں کی قبروں سے مردوں کی باقیات چوری ہونے کے بارے میں انہیں بتایا۔ قبرستان میں پرانے کفن میں لپٹی مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں بھی ملیں، جس کے بارے میں زمان ٹاؤن پولیس کو اطلاع دی گئی۔ یوسی چیئرمین سید جاوید علی کا کہنا تھا کہ قبرستانوں میں مردوں کی حرمت کو پامال کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ شہر میں واقع 190 قبرستانوں میں سے چند قبرستانوں کی چار دیواری بناکر بلدیہ عظمیٰ کے گورکن رکھے گئے تھے۔ بلدیہ عظمیٰ کے شعبہ قبرستان میں 150 سے زائد قبرستان رجسٹرڈ ہیں، جہاں تدفین کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق شہر کے پوش ایریاز اور وسط کے علاقوں میں واقع قبرستان میں چند ماہ بعد قبروں کو خالی کر کے دوبارہ تدفین کیلئے فروخت کرنے کے واقعات کم ہیں اور قبروں سے ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر جادو گروں کو بیچنے والی مافیا بھی زیادہ فعال نہیں۔ لیکن شہر کے مضافاتی علاقوں اور کچی آبادیوں کے قبرستانوں کی حالت بہت خراب ہے۔ کچھ عرصہ قبل ’’امت‘‘ نے خبر دی تھی کہ ملیر ندی میں جام صادق پل کے نیچے غیر قانونی طور پر قبرستان بناکر پیداگیری شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مضافاتی علاقوں اور کچی آبادیوں میں واقع قبرستانوں میں گورکنوں کا جادوگروں اور عاملوں سے گٹھ جوڑ ہے۔ گورکن انہیں قبروں سے مردوں کی مخصوص ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر فروخت کرتے ہیں، جن پر یہ عامل اور جادوگر عملیات کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ عامل اور جادوگر انسانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں دوسرے شہروں کے عاملوں اور جادوگروں کو بھی فروخت کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد آبادی بڑھنے پر کراچی میں جہاں نئے قبرستان قائم کئے گئے، وہیں گورکنوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ ایسے لوگ بھی اس پیشے میں آگئے جنہوں نے پیسے کے لالچ میں دین و ایمان کا سودا کرکے مردوں کی باقیات فروخت کرنا شروع کردیں۔ کراچی میں جعلی عاملوں اور سفلی جادوگروں کے ضمیر فروش گورکنوں سے رابطے ہیں، جو انہیں آرڈر کے مطابق قبروں سے مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر فروخت کرتے ہیں۔ دو سال قبل چکرا گوٹھ قبرستان میں ایک ہولناک واقعہ سامنے آیا تھا، جس میں اندرون سندھ کا رہائشی اللہ وسایا نامی نوجوان ایک معصوم بچے کی میت قبر سے نکال کر اس کا ہاتھ کاٹ رہا تھا۔ پکڑے جانے پر اس نے بتایا کہ ایک جادوگر نے اس کو کہا تھا کہ تیری پسند کی شادی اس وقت ہوگی جب کسی مردہ بچے کی دائیں ہاتھ کی ہڈی سے تعویذ بناکر قبرستان میں واقع نیم کے درخت سے باندھا جائے گا، لیکن اس کام کے پانچ ہزار روپے ہوں گے۔ پکڑے گئے نوجوان نے کہا کہ اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ لہذا اس نے گورکن لڑکے کو 500 روپے دیئے کہ کسی بچے کی قبر د کھاؤ۔ پھر وہ بچے کی لاش نکال کر جھاڑیوں میں لے گیا۔ تاہم وہ بچے کا ہاتھ کاٹ رہا تھا کہ پکڑا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جعلی عامل اپنے کلانٹس کو اس طرح کے مشکل کام بتاتے ہیں اور پھر یہ کام خود کرنے کا کہہ کر بھاری رقوم اینٹھتے ہیں۔ ذرائع کے بقول جعلی عاملوں نے اب سوشل میڈیا کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔ وہ اپنے پیج بناکر لوگوں کو گھیرتے ہیں۔ شہر میں سینکڑوں جعلی عامل بڑے بڑے ناموں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ دیواروں پر چاکنگ کراتے ہیں اور رسائل، اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے بھی اپنی تشہیر کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عاملوں، جادوگروں اور انسانی ہڈیاں فروخت کرنے والے گورکنوں کو پولیس کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔ قبروں کی بیحرمتی اور ہڈیاں نکالنے کی شکایات پر پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بعض پولیس والے علاقے کے گورکن، خاص طور پر ہڈیوں کے سودا گروں کو جانتے ہیں اور ان سے حصہ وصول کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اکبر بنگالی عرف گڈو نامی عامل ابراہیم حیدری قبرستان کے گورکنوں اسماعیل، توفیق اور دیگر سے انسانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں خریدتا ہے۔ علی اکبر شاہ گوٹھ قبرستان میں تین سال قبل ابراہیم حیدری پولیس نے کارروائی کی تھی۔ جہاں کے گورکن بلی والا بابا کو کھوپڑی 9 ہزار روپے میں اور بڑی چھوٹی ہڈیاں 3 سے 7 ہزار روپے میں فروخت کرتے تھے۔ اس کارروائی کے بعد ملزمان کیخلاف مقدمہ بھی درج ہوا تھا۔ ساحلی علاقوں کے قبرستان میں جمن عرف ماما سرگرم ہے۔ مواچھ گوٹھ قبرستان اور اطراف کے قبرستانوں میں رمضان عرف سندھی ماڑو یہ دھندا کررہا ہے۔ اس کے کارندے سعید آباد اور موچکو تھانوں میں کئی بار پکڑے گئے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی اور ملیر میں جانو عرف شاہ جی عرف چوہدری مردوں کی ہڈیاں فروخت کرتا ہے۔ ضلع سینٹرل میں سبحان عرف خان بابا کافی عرصے سے یہ مکروہ دھندا کررہا ہے۔ دوسری جانب کراچی پولیس گزشتہ کئی برسوں میں کسی بڑے گروہ کو گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ اعلیٰ افسران کے حکم پر رسمی کارروائی کرتے ہوئے دو تین گورکن پکڑے جاتے ہیں اور پھر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔ دو روز قبل ضلع کورنگی کی خاتون کونسلر نسرین نے اپنے یو سی چیئرمین جاوید علی کو بتایا کہ ان کی والدہ کی قبر کئی مرتبہ توڑی جاچکی ہے اور اس کے اطراف کی قبروں سے مردے نکالے جارہے ہیں۔ یو سی چیئرمین جاوید علی خود قبرستان پہنچے تو وہاں موجود ایک خاتون فاطمہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کی تدفین 23 مئی 2018ء کو ہوئی تھی۔ آج وہ قبرستان آئی ہیں تو قبر میں بڑا سوراخ نظر آرہا ہے اور قبر سے میت غائب ہے۔ یو سی چیئرمین اور کونسلر نے قبرستان کا جائزہ لیا تو بعض جگہ پرانے کفن کی پوٹلیاں نظر آئیں، جن میں انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں موجود تھیں۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ مل کر وہ ہڈیاں اور کھوپڑیاں دوبارہ دفن کرائیں اور جبکہ زمان ٹاؤن تھانے میں درخواست جمع کرائی کہ اس بارے میں تفتیش کر ے ذمہ داروں کو پکڑا جائے۔ اس واقعہ کے بعد قبرستان کے بعض گورکن روپوش ہوگئے ہیں اور جو موجود ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان معاملات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یوسی چیئرمین جاوید علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ قبروں سے ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر فروخت کرنے کا مکروہ دھندا چل رہا ہے۔ میئر کراچی کو کئی بار کہا ہے کہ مضافاتی اور کچی آبادیوں کے قبرستان پر توجہ دیں۔ حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ گورکنوں کی رجسٹریشن کرائی جائے تاکہ ایسے گھنائونے جرائم پر قابو پایا جا سکے۔ دوسری جانب اس حوالے سے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ قبر یا مردے کی بے حرمتی کے خلاف کوئی سخت قانون نہیں ہے اور قانونی پیچیدگیاں زیادہ ہونے پر ملزم بچ جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭