زلفی بخاری بہنوئی کے قاتل سے سختی نہ کرنے پر ناراض ہوئے

0

نمائندہ امت
تحریک انصاف حکومت کے پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرنے اور سفارشی کلچر ختم کرنے کے دعوے ایک بار پھر ہوا میں اڑ گئے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری اڈیالہ جیل میں قید اپنے بہنوئی بیرسٹر فہد ملک کے قاتل راجہ ارشد محمود کے ساتھ سختی نہ کرنے پر جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے ناراض تھے۔ ان کی ایک کال پر ایڈیشنل ہوم سیکریٹری پنجاب نے رات پونے بارہ بجے ایک حکم نامہ کے ذریعے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو بغیر کسی وجہ کے عہدوں سے ہٹا دیا اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (جوڈیشل) کو چارج سنبھالنے کا حکم جاری کردیا گیا۔ عہدے سے الگ کئے گئے اڈیالہ جیل کے سابق سپرنٹنڈنٹ منصور اکبر نے ’’امت‘‘ سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ انہیں زلفی بخاری نے ایک خاص ملزم کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ جس حد تک ممکن تھا، اس پر عمل بھی کیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ سامنے آگیا۔ معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد کے معروف بیرسٹر فہد ملک قتل کیس کے مرکزی ملزم راجہ ارشد محمود کو اس کے ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے جیل میں کافی مراعات حاصل رہی ہیں۔ جبکہ خطہ پوٹھوہار کی معروف ملک فیملی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری بیرسٹر فہد سہراب ملک، زلفی بخاری کے بہنوئی اور وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو کے سگے بھانجے بھی تھے۔ زلفی بخاری کی ہمشیرہ سکینہ بخاری بیرسٹر فہد ملک کی اہلیہ اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ ذرائع کے مطابق برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فہد ملک نے اسلام آباد آکر اپنے خاندانی کاروبار میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس دوران ملک فیملی کے ایک شخص اور راولپنڈی اسلام آباد کے پراپرٹی ٹائیکون راجہ ارشد محمود کا کسی معمولی ایشو پر تنازعہ ہوگیا۔ دونوں پارٹیاں بات چیت اور صلح کیلئے 14 اگست 2016 ء کی رات تھانہ شالیمار اسلام آباد میں اکٹھی ہوئیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق طویل بات چیت اور بحث مباحثہ کے بعد دونوں میں صلح ہوگئی۔ تاہم اس دوران بیرسٹر فہد ملک نے کچھ ایسی باتیں کیں جو راجہ ارشد اور اس کے ساتھیوں پر گراں گزریں۔ رات تقریباً بارہ بجے جب دونوں فریق باہمی رضامندی سے صلح کرکے تھانے سے باہر نکلے تو تھوڑے فاصلے پر جاکر مبینہ طور پر راجہ ارشد محمود، نعمان کھوکھر اور ہاشم خان نے بیرسٹر فہد ملک کی گاڑی پر فائرنگ کر کے انہیں قتل کردیا۔ اگلے دن اسی تھانے میں راجہ ارشد وغیرہ پر قتل کا مقدمہ درج ہوگیا۔ ملزم راجہ ارشد کو کئی ماہ بعد طورخم بارڈر سے افغانستان فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق چونکہ ملزم ٹیکس دہندہ اور ارب پتی ہے، اس کے ظاہر کردہ اثاثوں کی مالیت 50 ارب روپے ہے۔ اس لئے اس کو کچھ قانونی مراعات حاصل ہیں۔ جبکہ کچھ غیر قانونی مراعات اپنے مالی اثرورسوخ کی بنیاد پر جیل میں اس کو حاصل رہی ہیں۔ اس کے دو ساتھی ملزمان بھی جیل میں بغیر کسی مشکل کے رہے۔ اس دوران زلفی بخاری اور مقتول فہد ملک کے بھائی جواد ملک نے برطانیہ میں بھی مہم چلائی کہ برطانوی شہری کے قاتل اڈیالہ جیل راولپنڈی میں عیاشی سے رہ رہے ہیں۔ جبکہ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی خطوط اور یاداشتیں بھجوائی گئیں۔ ذرائع کے مطابق زلفی بخاری اور ملک فیملی نے اعلیٰ وکلا کی خدمات حاصل کر کے ملزمان راجہ ارشد اور گرد کیخلاف شکنجہ کسنے کی کوششیں کیں۔ تاہم ملزم راجہ ارشد کو ٹیکس دہندہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قانوناً بی کلاس حاصل تھی۔ لیکن مبینہ طور پر اس نے اپنی دولت کے زور پر موبائل فون اور لیپ ٹاپ جیسی غیر قانونی مراعات بھی حاصل کئے رکھیں۔
زلفی بخاری کے قریبی حلقوں کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے بعد زلفی بخاری کے خلاف میڈیا پر جو خبریں آتی رہیں، اس کے پس پردہ ایک پراپرٹی ٹائیکون اور راولپنڈی اسلام آباد کے ایک پراپرٹی مافیا کا ہاتھ تھا، جو راجہ ارشد کی سرپرستی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کے کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ زلفی بخاری پاکستان میں رہے یا اس کوئی عہدہ ملے اور وہ اپنے بہنوئی کے قتل کیس کی موثر طریقے سے پیروی کرسکے۔
متعبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ زلفی بخاری نے گزشتہ روز رات گیارہ بجے کے بعد سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو فون کر کے راجہ ارشد محمود کو دی گئی تمام مراعات ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ منصور اکبر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے زلفی بخاری کی بات مان لی تھی، لیکن ان کے بعض غیر قانونی احکامات تسلیم کرنے سے معذرت کی۔ جس کے کچھ دیر بعد انہیں یہ حکم ملا۔ منصور اکبر کا کہنا تھا کہ ’’میرے تبادلہ کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر آنے والی خبریں بالکل درست ہیں‘‘۔ تاہم منصور اکبر کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ زلفی بخاری اڈیالہ جیل میں قید اپنے بہنوئی کے تینوں مبینہ قاتلوں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کررہے تھے۔ جب سپرنٹنڈنٹ منصور اکبر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملک لیاقت نے ایک خاص حد سے آگے جانے سے انکار کیا تو فوری طور پر ان کا تبادلہ کرادیا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ستمبر میں اسی طرح سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سعید اللہ گوندل اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو اچانک وزیراعلی عثمان بزدار نے ٹرانسفر کر کے ان کی جگہ منصور اکبر اور ملک لیاقت کو تعینات کرایا تھا۔ سعید گوندل کا جرم یہ تھا کہ نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے موقع پر اسی جیل میں قید سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی تصویر وائرل ہوگئی، جس کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ افسران ٹرانسفر کردیئے گئے۔ اب اڈیالہ جیل میں چھ ماہ بعد یہی کہانی دہرائی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More