امت رپورٹ
سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی جلد رہائی کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ اس حوالے سے حکومت پاکستان نے اب تک کوئی باضابطہ کوشش نہیں کی ہے۔ جبکہ سعودیہ میں پاکستانی سفارتخانہ بھی اس حوالے سے دلچسپی نہیں لے رہا۔ سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں کم از کم تین ہزار پاکستانی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر اپنی سزا بھی پوری کر چکے ہیں۔ مگر حکومت پاکستان کی جانب سے مناسب پیروی نہ کئے جانے کے سبب ان کی رہائی ممکن نہیں ہو پارہی۔ قیدیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے شہزادہ محمد بن سلمان سے سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی اور ان کی مدد کی اپیل کی تھی۔ جس پر شہزادہ محمد بن سلمان نے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھا جائے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد سرکاری سطح پر دعویٰ کیا گیا کہ حکومت پاکستان نے سعودیہ میں اسیر پاکستانیوں کی رہائی کیلئے باضابطہ کام کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسیروں کی رہائیاں جلد شروع ہو جائیں گی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت نے کچھ نہیں کیا ہے۔ جبکہ سعودی عرب میں قید افراد کے پاکستان میں موجود لواحقین کا بھی کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے۔ لواحقین کے مطابق انہوں نے سعودی شہزادے کے بیان کے بعد کئی مرتبہ پاکستانی وزارت خارجہ سے اور سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے رابطے کئے ہیں۔ ابتدا میں تو وہاں سے یہ کہا گیا کہ باضابطہ رہائی کیلئے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ لیکن اب وہاں سے کسی قسم کا جواب بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔
کراچی کے رہائشی رحیم کی اہلیہ بھی سعودی عرب کی جیل میں قید ہیں۔ رحیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اعلان کے بعد وہ تین مرتبہ طویل سفر طے کرکے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دفتر گئے، تاکہ اپنی اہلیہ کی رہائی کے حوالے سے بات کرسکیں یا کچھ معلوم کر سکیں، لیکن یہ بھاگ دوڑ بے سود رہی۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’پہلی مرتبہ تو دفتر خارجہ میں موجود اہلکاروں نے میرے ساتھ بات کی اور بتایا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے اور یہ کہ جلد ہی دفتر سے خود ہی اطلاع دی جائے گئی۔ اس ییقن دہانی کے بعد میں واپس کراچی چلا آیا۔ مگر جب میری سعودیہ میں قید اہلیہ سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اب تک اس کی رہائی کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ سعودی عرب کی جیل کا عملہ اگر رہائی کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہو تو قیدیوں کو آگاہ کرتا ہے۔ بعد میں، میں نے دوبارہ وزارت خارجہ کے دفتر میں رابطہ کیا اور دوبارہ اسلام آباد کا طویل سفر بھی کیا۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے تسلی ہی دی کہ معاملات چل رہے ہیں، جلد نتائج سامنے آئیں گے۔ اس پر میں پھر کراچی آگیا۔ اس کے بعد گزشتہ ہفتے ہی میں تیسری بار وزارت خارجہ گیا۔ مگر اس مرتبہ تو کسی نے ہمیں اندر جانے کی اجازت ہی نہیں دی اور گیٹ ہی سے واپس بھیج دیا اور میں مایوس کراچی آگیا‘‘۔
پشاور کے رہائشی بخت زادہ نے بتایا کہ اس کے بھائی کی سزا پوری ہوئے تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ لیکن اب تک بھائی کی رہائی عمل میں نہیں آئی۔ اس کی رہائی کیلئے اس کو جدہ میں موجود پاکستانی سفارتخانے سے ضروری کاغذات درکار ہیں۔ کئی بار وزارت خارجہ اور جدہ میں پاکستانی سفارتخانہ سے رابطے کر چکے ہیں۔ وہاں سے یہی کہا جا رہا ہے کہ کاغذات پہنچائے جا رہے ہیں۔ مگر اب تک نہ تو کاغذات پہنچائے گئے ہیں اور نہ بھائی کی رہائی ممکن ہو پا رہی ہے۔ سعودیہ میں قید کئی افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے عزیز و اقارب معمولی معمولی باتوں پر سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں۔ اگر حکومت پاکستان سرکاری سطح پر ان کی مدد کرے اور رہائی کی کوشش کرے تو ان کی جلد واپسی متوقع ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً تین ہزار پاکستانی اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں اور ان میں ایسے افراد کی بھی ایک تعداد ہے، جن کو پھانسی کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی بے گناہی پر مصر ہیں، جبکہ متعد قیدیوں کے خیال میں ان کے کیس کی تفتیش مناسب انداز میں نہیں ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کے ممتاز وکیل ظفر اقبال ایڈووکیٹ کے مطابق سعودی عرب میں تفتیش اور انصاف کا نظام بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اسی طرح محنت مزدوری کی غرض سے جانے والوں کیلئے پیچیدہ قانون بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ایک سوال پر ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں مختلف حکومتیں اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان کے کئی شہریوں نے شکایات کی ہیں کہ انہیں غیر ممالک، بالخصوص سعودی عرب میں ایسی سہولتیں حکومت پاکستان کی جانب سے دستیاب نہیں ہوتیں اور اسی وجہ سے پاکستانیوں کے لئے مسائل بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭