سدھارتھ شری واستو
بابری مسجد کے مجرموں کا سیاسی مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ بی جے پی کے جن رہنمائوں نے 1992ء میں ’’رتھ یاترا ‘‘نکال کر بابری مسجد شہید کرنے کیلئے ہزاروں شر پسند ہندوئوں کی قیادت کی تھی۔ ان رہنمائوں کو بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کھڈے لائن لگا دیا ہے۔ ایل کے ایڈوانی سمیت ان میں کسی رہنما کو الیکشن لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔ الیکشن 2019ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ سے محروم کردیئے جانے والے رہنمائوں میں دریدہ دہن خاتون رہنما اور سابق وزیر اوما بھارتی، سابق وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی، سابق یونین منسٹر مرلی منوہر جوشی، سابق وزیر کلراج مشرا، لوک سبھا کی سابق اسپیکر سومترا مہاجن اور ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شانتا کمار سمیت درجنوں اہم رہنما شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی بی جے پی رہنما ہیں، جنہوں نے 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے لگ بھگ ایسے 250 رہنمائوں کو الیکشن 2019ء میں چنائو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے، جو بابری مسجد کی شہادت میں کسی نہ کسی طرح حصہ دار تھے۔ ان رہنمائوں میں ریاست اتر کھنڈ کے سابق وزرائے اعلیٰ بی ایس کوشیاری اور بی سی کندوری سمیت سابق ڈپٹی اسپیکر لوک سبھا کاریا منڈا بھی شامل ہیں، جن کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے الیکشن سے دستبردار ہوجانے کی صلاح دی گئی اور عدم تعاون کی پاداش میں سخت ایکشن کا عندیہ دیا گیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے بتایا ہے کہ بابری مسجد کو تین دہائیوں قبل شہید کرنے والے رہنمائوں کو آج خود بی جے پی قبول کرنے اور اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ان میں سے جو رہنما الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ میں جانے کی خواہش رکھتے ہیں، ان کو ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اور جن رہنمائوں نے الیکشن سے کنارہ کشی کرنے کی بی جے پی کی صلاح مان لی ہے، ان کو مختلف سرکاری اور پارٹی عہدوں سے نوازا جا رہا ہے۔ ان میں سر فہرست اوما بھارتی ہیں، جو بابری مسجد کی شہادت کے وقت خوشی سے نعرے لگا رہی تھیں۔ ٹیلیگراف انڈیا کے مطابق اوما بھارتی کو بی جے پی الیکشن بورڈ کی جانب سے امیت شاہ سے ملاقات کی درخواست اور الیکشن 2019ء میں ٹکٹ سے دستبردار ہونے کا مشورہ بھیجا گیا تھا۔ جس کے بعد اوما بھارتی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ امیت شاہ سے ملاقات کی اور الیکشن ٹکٹ نہ مانگنے کا مشورہ مان لیا۔ اس کے بعد اوما بھارتی کو امیت شاہ نے بی جے پی کی قومی نائب صدر بنا دیا ہے۔ بھارتی صحافی کوشل کمار نے اپنے تجزیہ میں بتایا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے سب سے پہلا وار پارٹی کے بزرگ رہنما اور سابق وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی پر کیا ہے اور ان کو الیکشن 2019ء میں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔ ایل کے ایڈوانی کی جگہ امیت شاہ نے گاندھی نگر حلقہ سے الیکشن لڑنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کی آشیرباد حاصل کرلی ہے۔ امیت شاہ کے بارے میں بی جے پی ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ ایل کے ایڈوانی کے حلقہ گاندھی نگر میں امیت شاہ ہی عوامی رابطہ مہم چلاتے تھے اس لئے ان کو ایل کے ایڈوانی کی جگہ ٹکٹ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ امیت شاہ اور نریندر مودی کے خلاف 2002ء میں گجرات قتل عام کی سرپرستی کا بھی الزام ہے۔ بابری مسجد شہید کرنے والے تیسرے بڑے رہنما مرلی منوہر جوشی ہیں۔ ان کے قریبی ذرائع نے کہا ہے کہ مسٹر جوشی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوئوں کیلئے بڑی خدمات ہیں، لیکن ان کا اعتراف کرنے کے بجائے انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے اور ان کی جانب سے ٹکٹ کی درخواست کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس ’’مارگ درشن منڈل‘‘ کے فیصلہ کے تحت 75 برس سے اوپر کے کسی بھی رہنما کو بی جے پی کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ بھارتی صحافی کمل ناتھ نے بتایا ہے کہ ’’مارگ درشن منڈل‘‘ کا مطلب یہی تھا کہ آہستہ آہستہ تمام ایسے رہنمائوں کو الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی لسٹ سے ہی باہر کردیا جائے۔ کمل ناتھ کا کہنا ہے کہ مرلی منوہر جوشی کی عمر اس وقت 85 برس ہے اور وہ 1991ء سے 1993ء تک بی جے پی کے قومی صدر تھے۔ لیکن اب ان کے ساتھ انتہائی ذلت آمیز سلوک کیا جارہا ہے، جس کا الزام مودی اور امیت شاہ پر عائد کیا جارہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق یونین منسٹر کلراج مشرا کو بھی حالیہ الیکشن میں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ بابری مسجد کی شہادت میں بہت زیادہ متحرک تھے اور ہزاروں کار سیوکوں کو اپنے حلقے سے بھی ایودھیا لائے تھے۔ بھارتی جریدے اسٹیٹس مین نے لکھا ہے کہ ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت اہم رہنمائوں کا الیکشن سے اخراج بھارتیہ جنتا پارٹی کی وہ پالیسی ہے جس کو مودی اور امیت شاہ نے مل کر ترتیب دیا ہے۔ اب مودی، امیت شاہ، سشما سوراج، ارون جیٹلی اور نتن گڈکری پر مبنی ٹولہ ایک ایک کرکے تمام اہم پارٹی رہنمائوں کو باہر کرنے کیلئے کام کررہا ہے۔ ہماچل پردیش ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ شانتا کمار کو بھی الیکشن 2019ء میں ٹکٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔ ریاست اتر کھنڈ کے سابق وزرائے اعلیٰ شری بی ایس کوشیاری اور بی ایس کندوری کو بھی بی جے پی الیکشن بورڈ نے ٹکٹ دینے سے منع کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭