اسرائیل میں 7 ہزار فلسطینی پابند سلاسل

0

ضیاء الرحمن چترالی
صہیونی ریاست اسرائیل کی جیل میں 13 ہزار 220 دنوں سے قید فلسطینی شہری دنیا کا سب سے قدیم قیدی (The oldest prisoner in the world) بن گیا۔ عزم و ہمت کے پہاڑ یونس کریم کو 6 جنوری 1983ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس وقت وہ 25 برس کے جوان تھے اور اب 61 برس کے بوڑھے۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیران میں کئی ایسے ہیں، جو برسوں سے پابند سلاسل ہیں۔ مگر یونس کریم 36 سال مکمل کرنے کے بعد اسیری کے 37 ویں برس میں داخل ہو گئے ہیں۔ یونس کریم کی گرفتاری کے چند روز بعد ان کے چچا زاد ماہر عبداللطیف یونس کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ان کی اسیری کے بھی 36 سال پورے ہوگئے۔ متحدہ عرب امارات کے اخبار البیان کی رپورٹ کے مطابق کریم یونس 23 جنوری 1958ء کو مقبوضہ فلسطین میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ انہیں 6 جنوری 1983ء کو حراست میں لیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کے الزام میں کریم یونس پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔ کریم یونس کی اسیری کے عرصے میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے۔ قیدیوں کے تبادلے کے کئی معاہدے ہوئے، جن میں فلسطینی تنظیموں کی طرف سے کریم یونس کا نام بھی شامل کیا گیا۔ مگر صہیونی ریاست ان کا نام شامل کرنے سے ہر بار انکار کرتی رہی۔ اسرائیلی زندانوں میں طویل المدت اسیری کاٹنے والے فلسطینیوں میں دوسرے نمبر پر قید ماہر عبداللطیف بھی اسیری کے 36 سال مکمل کرنے کے بعد 37 ویں برس میں داخل ہوگئے ہیں۔ انہیں اسرائیلی فوج نے 18 جنوری 1983ء کو حراست میں لیا تھا۔ کریم اور ماہر یونس کے پاس اسرائیلی شہریت ہے اور ان دونوں پر اسرائیل نے غداری کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلا کرانہیں کڑی سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے معاہدوں میں اسرائیل نے ان دونوں کی رہائی کا مطالبہ قبول نہیں کیا۔ فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چار مئی 1994ء سے قبل کے اسیر فلسطینیوں کی تعداد 29 ہے۔ ان فلسطینیوں کو 2014ء میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت رہا کیا جانا تھا۔ مگر اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی رہائی مسترد کر دی تھی۔ پرانے اسیران میں 25 اسیر ربع صدی سے قید ہیں۔ 11 اسیران 30 سال سے زائد عرصے سے قید ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کی تعداد 7000 کے قریب ہے۔ ان میں 56 خواتین، 350 بچے، 12 ارکان پارلیمان اور 500 انتظامی قیدی شامل ہیں۔ العربیہ کے مطابق یونس کریم کی چھیاسی سالہ ماں اب بھی ان کی راہ تک رہی ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں 1948ء میں قبضے میں لی گئی فلسطینی اراضی کے شمالی تکون میں عارہ اور عرعرہ نامی دیہات کے درمیان علاقے میں ایک تین منزلہ مکان واقع ہے۔ اس مکان میں 86 سالہ فلسطینی خاتون (حجّن بی) صبحیہ یونس اپنی کرسی پر بیٹھے دن بھر سڑک پر آتے جاتے راہ گیروں کو تکتی رہتی ہیں۔ بوڑھی خاتون کے چہرے پر نمایاں آثار اپنے اندر ایک تاریخ رکھتے ہیں، جس کو کتابیں بیان نہیں کر سکتیں۔ جی ہاں، صبحیہ یونس کا بیٹا کریم یونس 36 برسوں سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہے۔ صبحیہ خاتون ہمیشہ مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے مہمانوں کا استقبال کرتی ہیں۔ بعد ازاں وہ اپنے بڑے بیٹے کریم کا قصہ چھیڑ دیتی ہیں، جس کو 1983ء میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ صبحیہ خاتون نے العربیہ کو بتایا کہ… ’’اس روز قابض اسرائیلی فوج نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا اور فوجیوں نے کریم کی تلاش شروع کر دی۔ میں نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ ان دنوں کریم اپنی یونیورسٹی کے نزدیک بئر السبع میں سکونت پذیر تھا‘‘۔ صبحیہ کے مطابق اسرائیلی فوج نے یونیورسٹی پر چھاپہ مارا اور کریم کو اس کی کلاس کی نشست پر سے گرفتار کر لیا۔ اس دن سے لے کر آج تک کریم پابندِ سلاسل ہے۔ کریم کے بھائی ندیم یونس کہتے ہیں کہ ’’میں کریم کی عالی ہمت اور بلند حوصلے کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں، جو ابھی تک مصر ہے کہ زندگی اس کی منتظر ہے۔ کریم نے ایک دن بھی ہمت نہیں ہاری‘‘۔ اسرائیلی عدالت کریم کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنا چکی ہے۔ اسرائیلی جیل حکام نے کریم کو 75 روز کے لیے سرخ لباس پہنا دیا۔ قبل اس کے کہ سزا میں کمی کر کے اسے عمر قید یعنی 40 برس کی جیل میں تبدیل کر دیا جائے۔ کریم نے اسرائیلی جیلوں میں رہتے ہوئے دو کتابیں لکھ ڈالیں۔ ابھی ان کے سامنے چار برس کی قید اور ہے، جس کے بعد 40 برس کی عمر قید اختتام کو پہنچ جائے گی۔ تاہم اس کے بعد بھی کچھ پتہ نہیں کہ صہیونی ریاست انہیں رہا کر دے۔ صبحیہ خاتون اپنے کانپتے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’میری آرزو ہے کہ کریم اسرائیلی جیلوں سے باہر آ کر میرے ساتھ زندگی گزارے، خواہ صرف ایک ہی برس کیوں نہ ہو‘‘۔ اسرائیل کریم یونس کو رہا کرنے سے اِس بہانے انکار کرتا ہے کہ کریم کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔ لہٰذا وہ 1948ء کے دیگر فلسطینی قیدیوں کی طرح قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ کریم یونس اس وقت صحرائے نقب کی جیل میں قید کاٹ رہے ہیں۔ اس سے قبل انہیں ایک سے زیادہ اسرائیلی جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ اس موقع پر البیان نے بھی صبیحہ کا انٹرویو کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سے بیس برس قبل خواب میں، میں نے کریم کو دیکھا۔ میں بڑی خوشی سے اس کی شادی کی تیاریاں کر رہی ہوں اور اس کے لئے ایک کمرہ سجا رہی ہوں۔ اس کے بعد سے آج تک میری پلکیں کبھی خشک نہیں ہوئیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More