سرفروش

0

عباس ثاقب
اسی دوران رخسانہ اور جمیلہ بھی بیٹھک میں آگئیں۔ میں نے رخسانہ کے سلام کا جواب سر پر ہاتھ پھیر کر دیا اور ان سے پوچھا ’’سب ٹھیک تو رہا بھائی؟ کوئی مسئلہ، کوئی دشواری تو پیش نہیں آئی؟‘‘
اس دوران میں یاسر اطمینان سے بیٹھ چکا تھا۔ اس نے ایک نظر رخسانہ کو دیکھا اور پھر پر سکون لہجے میں کہا ’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ہمیں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔ راستے میں جگہ جگہ پولیس بس روک کر ایک ایک مسافر کی شکل دیکھتی رہی۔ لیکن ہم دونوں کو کسی نے شک کی نظروں سے نہیں دیکھا۔ نہ ہی کسی نے خاص طور پر ہم سے پوچھ گچھ یا جانچ پڑتال کی!‘‘۔
میں نے کہا ’’یہ واقعی رب ذوالجلال کی خصوصی کرم نوازی ہے‘‘۔
یاسر نے فوراً کہا ’’لیکن ہمارا وہ اندازہ بالکل ٹھیک نکلا کہ پولیس باؤلے کتے کی طرح مشکوک افراد کو پھاڑ کھانے کو تلی ہوئی ہوگی۔ راستے میں کم از کم دو جگہ پولیس والے تین چار لڑکوں کو بس سے اتار کر اپنے ساتھ لے گئے اور ان میں سے دو کو راستے میں روک کر بس کو آگے روانہ کر دیا۔ آپ اگر اپنے اصل روپ میں وہاں کا رخ کرتے تو بچ کر نہیں نکل سکتے تھے‘‘۔
میں نے اثبات میں گردن ہلائی اور اصل موضوع پر آتے ہوئے بے تابی سے پوچھا ’’امرتسر پہنچنے کے بعد کا حال تفصیل سے بتائیں بھائی۔ سکھبیر سے باآسانی ملاقات ہوگئی تھی ناں؟ اس کو کیا بتایا اور اس نے کیا کہا؟‘‘
یاسر نے میری حالت پر مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’منندر بھٹی کی دکان ہمیں آسانی سے مل گئی تھی۔ اتفاق سے وہ وہیں موجود تھا۔ میں نے جیسے ہی آپ کا وہ نام لیا، جو آپ نے انہیں بتایا تھا، تو وہ فوراً مجھے پہچان گیا اورگرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔ میں نے سکھبیر سے ملوانے کو کہا تو اس نے کچھ ہی دیر میں میرا پیغام ہرمندرصاحب میں سکھبیر تک پہنچا دیا اور پھر سکھبیر نے مجھے کہلوایا کہ اکال تخت سے ملحق لنگر خانے پہنچ کر اس کا انتظار کروں۔ میں ان محترمہ کو ساتھ لے کر ہرمندر صاحب میں جا پہنچا‘‘۔
وہ شاید میری بے قراری سے لطف اندوز ہونے کے لیے چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے بات آگے بڑھائی ’’ہمارے مقررہ مقام پر پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد سکھبیر میرے پاس پہنچا اور اشارے سے ایک الگ تھلگ گوشے کی طرف بلایا۔ پھر وہ مجھے ایک عمارت میں لے گیا۔ میں نے اس سے اپنا تعارف کرایا اور پھر خط دینے کے بعد تفصیل سے سب کچھ بتا دیا۔ یہ سب سن اور پڑھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے کہا کہ یہ سب اس کے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ لیکن جو کچھ آپ پر گزری ہے۔ اور جس طرح آپ پھندے میں پھنسنے سے بال بال بچے ہیں۔ اس کے بعد یہ سب سچ ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
میں نے بمشکل اس کی بات ختم کرنے کا انتظار کیا اور پھر پوچھا ’’خفیہ والوں کی طرف سے ہرمندر صاحب سے کی جانے اور آنے والی فون کالیں سننے اور ریکارڈ کرنے کا سن کرا س نے کیا ردِ عمل ظاہر کیا؟‘‘
یاسر نے سنجیدگی سے کہا ’’یہ انکشاف ہی تو اس کے لیے حیرت انگیز اور پریشان کن تھا۔ میں نے بتایا کہ یہ خفیہ والے انسپکٹر نے خود بتایا ہے تو اس کی حالت قابلِ دید تھی۔ لیکن پھر اس نے بتایا کہ وہ ابھی اور اسی وقت اپنے تمام ساتھیوں کو خبردار کرنے والا ہے اور آئندہ کوئی بھی فون کال کرتے یا وصول کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے گا‘‘۔
میں نے کہا ’’یار یاسر بھائی۔ مجھے آپ کی باتوں سے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ سکھبیر نے آپ کی باتوں کی سنگینی پوری طرح محسوس نہیں کی؟ اس کا ردِ عمل مجھے سرسری سا کیوں لگ رہا ہے؟‘‘
میری بات سن کر یاسر نے قہقہہ لگایا اورکہا ’’مجھے بھی شروع میں یہی لگا تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ میری باتوں کو جوں کا توں سچ تسلیم کرنے کے بجائے ہم پر خفیہ پولیس کے کارندے ہونے کا شک کر رہا ہے۔ کیونکہ ہمارے وہاں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد چار پانچ مسلح سکھ نوجوانوں نے ہمیں گھیرے میں لے کر ایک کال کوٹھری میں پہنچا دیا اور سکھبیر صاحب ہمیں خوف ناک تشدد کی دھمکیاں دے کر سچ اگلوانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ اسے یقین ہے کہ ہم خفیہ والوں نے آپ کو پکڑلیا ہے اور آپ کی زبان سے معلومات اگلوانے کے بعد اسے پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
میں نے یاسر کی بات سن کر عجلت سے پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟ اس نے تم پر تشدد تو نہیں کیا؟ میں نے بتایا تھا ناں کہ اس نے مجھ پر بھی شک کیا تھا؟‘‘
یاسر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ہاں بھائی۔ مجھے یہ بات اچھی طرح یاد تھی۔ رخسانہ اور میں نے اپنی سچائی جتانے کی کافی کوشش کی۔ لیکن وہ اتنی آسانی سے ماننے والا نہیں تھا‘‘۔
میں نے کہا ’’یار تجسس بڑھانے کی کوشش نہ کرو۔ سیدھاسیدھا بتا دو کہ کیا ہوا؟ تم لوگوں نے اسے کیسے یقین دلایا؟‘‘۔
یاسر نے ایک نظر رخسانہ کی طرف دیکھا جو کھل کر مسکرا رہی تھی اور پھر کہا ’’بس یوں سمجھو کہ اللہ نے بروقت ہمیں عقل دے دی۔ میں نے کہا کہ سکھبیر بھائی، آپ نے ہمارے بھائی پر بھی اسی طرح شک کیا تھا اور اسے بالآخر اپنے انداز میں آپ کو سچائی کا یقین دلانا پڑا تھا۔ اگرآپ کہیں تو میں ان سے آپ کی زورآزمائی کا حال آپ کے ان سب ساتھیوں کے سامنے بتا دوں؟ بس یہ سنتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ اس نے ہمارے ہاتھ پاؤں کھول دیئے اور ہمارا پستول بھی واپس کر کے عزت سے بٹھایا اور اپنے ساتھیوں کو رخصت کرتے ہوئے ہمارے لیے کھانے پینے کا حکم بھی دیا‘‘۔
اس کی بات سن کر میں نے اطمینان بھرا قہقہہ لگایا ’’آپ میرے اندازے سے زیادہ ذہین نکلے یاسر بھائی۔ آپ نے اسے وہ بات یاد دلائی۔ جس کا خفیہ پولیس تو کیا، اس کے قریبی ساتھیوں کو بھی خبر نہ تھی۔ پھر تو اسے یقین کرنا ہی تھا‘‘۔
یاسر نے کہا ’’جمال بھائی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ والی بات مجھے نہیں رخسانہ کو یاد تھی۔ اسی نے مجھے اشارہ دیا تھا۔ ورنہ میں اسے اتنی آسانی سے یقین نہ دلا پاتا‘‘۔
میں نے رخسانہ کی طرف دیکھا۔ وہ سر جھکائے چپ چاپ مسکرا رہی تھی۔ اس نے گفتگو میں دخل دے کر اپنا کارنامہ جتانے کی قطعاً کوشش نہیں کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لیے یاسر کی نظروں میں گہری ستائش نظر آ رہی تھی۔ میں نے دیکھا جمیلہ ان دونوں کی کیفیت بھانپتے ہوئے شرارت سے مسکرا رہی ہے۔ اس نے پھر میری طرف دیکھا اور میرے چہرے پر بھی مسکراہٹ دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More