افغان صدر بھارتی ایما پر پاکستان سے کشیدگی بڑھانا چاہتے ہیں

0

محمد قاسم
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز دیئے جانے کے بعد کابل حکومت نے بھارت کی ایما پر ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ افغان حکومت نے کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا اور افغان سفیر کو اسلام آباد سے واپس بلا لیا ہے۔ جبکہ امریکہ نے بھی عمران خان کی تجویز پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز سینئر پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان حکومت کی ناراضگی کی وجہ سے انہوں نے اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ ملاقات ملتوی کی تھی اور افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس پر افغانستان میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ عمران خان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد کس طرح کی حکومت ہوگی، یہ فیصلہ عمران خان نہیں، بلکہ افغان عوام کریں گے۔ پاکستانی وزیراعظم اس طرح کے بیانات سے گریز کریں۔ افغان اپوزیشن کی جانب سے بھی ایسے بیانات آنے کے بعد کابل حکومت نے منگل کی شام پاکستانی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا اور کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کا بیان افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کابل حکومت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کی حکومت نہ صرف پاکستان مخالف تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات حمایت کرتی رہی، بلکہ پاکستان کے حساس معاملات پر سخت بیانات بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی وزارت خارجہ نے بڑے تحمل کے ساتھ ان کا جواب دیا اور افغانستان کے سفیر کو بلا کر احتجاج نہیں کیا، تاکہ پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات معمول پر رہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے حالیہ رویے سے دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا ہوگی، جن کا طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے اپنے سفیر لطیف مشعل کی اسلام آباد سے کابل طلبی کا مقصد ان سے مشاورت قرار دیا ہے۔ تاہم بھارتی لابی یہ کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کے سفیر کو افغانستان سے نکالا جائے۔ ذرائع کے بقول بھارتی حکام افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کیلئے کوشاں ہیں، تاکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی اس کھیل میں بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ادھر پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کسی جماعت یا عبوری حکومت کی بات نہیں کی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد عبوری حکومت قائم ہو جاتی ہے تو حکومت پاکستان، افغانستان میں امن کیلئے تعاون کرے گی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے احتجاج پر اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ اپنی ملاقات ملتوی کردی تھی، حالانکہ اس وقت پوری دنیا کے سربراہان مملکت افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ قطر اور دبئی کے حکمرانوں نے طالبان رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں، لیکن پاکستانی وزیر اعظم نے صرف افغان حکومت کی ناراضگی کے پیش نظر ملاقات ملتوی کردی تھی۔ لیکن افغان حکومت اب بھارتی ایما پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانا چاہتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل حکومت ایسے موقع پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا رہی ہے کہ جب افغانستان کے ذرائع ابلاغ میں مشرقی افغانستان میں صوبائی تعمیراتی ٹیم نامی پروجیکٹ میں آٹھ ارب ڈالر خورد برد کی خبریں چل رہی ہیں۔ ذرائع کے بقول اس منصوبے کی مشینری پاکستان میں فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے بعد پی آر ٹی (پراونشل ری کنسٹرکشن ٹیم) منصوبے کیلئے فنڈز دینے والے ڈونرز نے مزید رقوم دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت اس میگا اسکینڈل کو چھپانے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ کشیدگی پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ یہ معاملہ دبا رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ خوردبرد گزشتہ پانچ برس کے دوران ہوئی ہے۔ خطیر رقم مشرقی افغانستان میں سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر کیلئے خرچ کی جانی تھی۔ اس منصوبے کے تحت مقامی اخباری صنعت کو فروغ دینے کیلئے پریس مشینیں بھی منگوائی گئی تھیں، جنہیں ٹکڑے کر کے کباڑ میں فروخت کردیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایک تاجرنے تقریباً آٹھ کروڑ ڈالر کمائے، جس کو حکومت نے گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More