احمد خلیل جازم/تصاویر: تنزیل رحمان
راولپنڈی کے علاقے بنی چوک کے ایک محلے نیاریاں میں جامع مسجد گولیاں والی قریباً پانچ سو برس قبل تعمیر کی گئی۔ اس کا اصل نام شاہی مسجد ہے، جو 1010 ہجری میں تعمیر ہوئی۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کو شیر شاہ سوری نے بنوایا۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے کسی اور افغان بادشاہ نے یا پھر مغلوں نے بنوایا تھا۔ چونکہ اس کی تاریخ تعمیر کے علاوہ دیگر معلومات کہیں دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اسے کس نے بنوایا تھا، ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہوگا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شیر شاہ سوری نے یہاں نماز بھی ادا کی تھی۔ لیکن اگر اس مسجد کی تاریخ تعمیر کو درست مان لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم اسے شیر شاہ سوری نے تو تعمیر نہیں کرایا۔ کیونکہ شیر شاہ سوری کا ارتحال 925 ہجری میں ہوا تھا۔ یوں اس کے دور حکومت میں تو یہ بننے سے رہی۔ البتہ بعد میں آنے والے مغل بادشاہوں کا دور اس کا سن تعمیر ضرور ہو سکتا ہے۔ سکھوں کے دور میں اس پر قبضہ ہوا اور سکھوں نے حسب معمول دیگر مساجد کی طرح اسے بھی اصطبل میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس مسجد پر آج بھی سکھوںکی جانب سے چلائی گئی گولیوں کے نشانات موجود ہیں۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اس مسجد پر گولیاں سکھوں نے چلائی تھیں۔ لیکن کب اور کیوں چلائی گئیں، اس بارے میں فی الحال معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ امام مسجد کا بتانا ہے کہ مسجد کے پرانے محراب کے اوپر بھی گولیوں کے نشان عرصہ دراز تک موجود رہے۔ لیکن چونکہ بعد میں خستگی کے باعث اس پر سنگ مرمر لگایا گیا تو وہ نشانات مٹ گئے۔ مسجد کا اندرونی ہال اصل شکل میں موجود ہے۔ لیکن چالیس برس قبل تمام مسجد پر سنگ مرمر لگا دیا گیا۔ یہاں پر امام مسجد مولانا تقی عثمانی کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں۔ جن کا نام مولانا عبدالقدیر ہے۔ انہوں نے امت ٹیم کو مسجد کے بارے میں دستیاب معلومات سے آگاہ کیا۔ جس میں اہم بات یہ ہے کہ ’’مسجد کی کوئی باقاعدہ تاریخ کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ اس کی قدامت بہرحال اپنی جگہ ثابت شدہ ہے‘‘۔
محلہ نیاریاں قدیم راولپنڈی کی تنگ گلیوں پر مشتمل ایک پرانا محلہ ہے۔ اس کی گلیوں میں دو بائیسکل مشکل سے ایک دوسرے کو کراس کرتی ہیں۔ انہیں گلیوں میں یہ مسجد واقع ہے۔ مسجد چونکہ اندورن شہر اور چھپی ہوئی ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ بلکہ اس محلے کے اکثر لوگوں کو مسجد کے بارے میں تو معلوم ہے۔ لیکن اسے گولیاں والی مسجد کیوں کہا جاتا ہے، یہ معلوم نہیں۔ مسجد کے عین سامنے گلی کے نکڑ پر ایک چھوٹی سی جنرل اسٹور نما دکان ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے نوجوان سے گولیاں والی مسجد کے بارے میں پوچھا کہ اسے گولیاں والی مسجد کیوں کہتے ہیں تو اس نے بے خبری سے کندھے اچکا کر کہا کہ ’’معلوم نہیں۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ کئی سو برس پرانی مسجد ہے‘‘۔ ایسی صور تحال میں گولیاں والی مسجد کے دروازے تک پہنچ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آیا کوئی ایسا شخص بھی مل سکے گا۔ جو اس مسجد کی تاریخی اہمیت سے روشناس کرا سکے۔ نماز ظہر کا وقت تھا اور مسجد میں نمازی وضو کر کے نماز کی تیار کر رہے تھے۔ بعد از نماز بعض لوگوں سے مسجد کے بارے میں سوالات کیے تو سب نے یہی کہا کہ امام صاحب جانتے ہیں۔ ان سے پوچھیے۔ امام صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کے ہمراہ ایک بزرگ محمد دائود سے بھی بات چیت شروع کی۔ امام عبدالقدیر نے بڑی خوش دلی سے ہمیں حجرے میں لے جاکر بٹھایا اور مسجد کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ مسجد فقط ایک اندرونی ہال پر مشتمل تھی، جو کہ صدیوں پہلے تعمیر ہوا۔ اور یہی ہال ہی صرف مسجد کہلاتی تھی۔ اس کی دیواریں چار فٹ چوڑی اور مضبوط ہیں۔ اس چھوٹے سے ہال کمرے کے اوپر ایک گنبد تعمیر کر کے مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ جبکہ اس مسجد کی قدیم محراب کے اوپر میناکاری کی گئی تھی۔ ایسی ہی مینا کاری دائیں اور بائیں جانب دیواروں پر بھی کی گئی تھی۔ لیکن زمانے کی دست برد سے ایک تو وہ مینا کاری خراب ہو رہی تھی۔ دوسرے اس کی دیواروں سے چونا اور دیگر مٹیریل گرنا شروع ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس پر سنگ مرمر لگادیا گیا‘‘۔ اس موقع پر محمد دائود کا کہنا تھا کہ ’’میرا لڑکپن انہی گلیوں میں گزرا ہے۔ یہ مسجد پہلے صرف ایک کمرے پر محیط تھی۔ بعد ازاں اسی مسجد کے ساتھ جو مکان تھا وہ خرید کر اس کی توسیع کی گئی۔ جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس کی دائیں جانب والی دیوار کو توڑا گیا۔ چار فٹ موٹی دیوار کو توڑنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ بڑی مشکل سے اسے توڑا گیا اور مسجد کا اندرونی ہال بڑا کیا گیا‘‘۔
گولیاں والی مسجد کے اندرونی ہال کے لیے تین دروازے بنائے گئے ہیں۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو سامنے پرانے ہال کی دیواریں دکھائی دیتی ہیں۔ اس لیے مرکزی ہال میں داخلے کے لیے دائیں سمت سے دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ نمازیوں کے داخلے میںآسانی رہے۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب ہال کمرے میں الگ سے ایک ہال کمرہ دکھائی دیتا ہے۔ جس کے باہر تین دروازے موجود ہیں۔ جن پر در نہیں ہیں۔ یہ اونچائی میں ساڑھے پانچ فٹ کے قریب ہیں۔ یعنی چھ فٹ کا آدمی سر جھکا کے اندر داخل ہوگا۔ جبکہ مرکزی ہال میں اس ہال کی بائیں طرف والی موٹی دیوار گرا کر اندرونی ہال کمرے کو مرکزی ہال کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ مرکزی ہال 1985ء میں اس قدیمی مسجد کے ساتھ شامل کیا گیا۔ یہ کسی کی حویلی تھی، جو مسجد سے متصل تھی۔ اسے خرید کر مسجد کے ساتھ شامل کر کے مسجد کا اندرونی احاطہ بڑھایا گیا۔ اندر دو مرکزی محرابیں ہیں۔ ایک قدیم محراب ہے۔ جس کے اوپر خوبصورت مینا کاری کی گئی ہے۔ جبکہ ایک محراب بعد میں بنائی گئی ہے۔ جو مرکزی ہال کے عین وسط میں واقع ہے اور یہی محراب استعمال میں لائی جاتی ہے۔ کیونکہ قدیمی محراب کی اونچائی بہت کم ہے۔ اس میں کسی کا کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس حوالے سے محمد دائود کا کہنا ہے کہ ’’پہلے باہر والے حصے کے مقابلے میں اندرونی ہال نیچے تھا۔ ایک ڈھلان کی طرح باہر سے اندر داخل ہونے والے کا پائوں یکایک نیچے جاتا اور اندر آنے والا شخص لڑکھڑا جاتا تھا۔ بعد میں اندرونی حصے کی بھرائی کی گئی اور باہر والے حصے کے برابر کر دیا گیا۔ قدیم اندرونی حصے کے تین اطراف یعنی سامنے اور دائیں بائیں مینا کاری کی گئی تھی۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیواروں کی خستگی کے باعث بہت خراب ہوگئی تھی۔ چنانچہ محلے والوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ پوری مسجد پر سنگ مرمر لگا دیا جائے۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ دائیں بائیں تو قدیم آرٹ محفوظ نہ رہ سکا۔ لیکن سامنے محراب کے اوپر جو مینا کاری ہے اسے کسی طرح محفوظ بنایا جائے۔ چنانچہ ملک کے معروف پینٹر محمد عظیم اقبال سے رابط کیا گیا، اور انہوں نے محراب کے اوپر جو مینا کاری تھی، اسے نہ صرف محفوظ کیا۔ بلکہ مزید مینا کاری کر کے اس کے حسن کو دو چند کر دیا‘‘۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے عظیم اقبال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہاں مغل ایرا کا کام ہوا تھا۔ یہ جو مغل مینا کاری ہوتی ہے، یہ چونے کے اوپرکچے رنگوں سے بنائی جاتی ہے۔ یعنی پانی کے رنگ استعمال ہوتے ہیں۔ پہلے اس پر چونے کا پلستر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اوپر ڈرائنگ کی جاتی ہے اور پھر آبی رنگوں سے بھرائی کی جاتی ہے۔ ہم نے بھی ایسے ہی کوشش کی ہے۔ مغلوں کے دور میں فریسکو پینٹنگ کا چلن عام تھا۔ بعض جگہوں پر آپ کو یہ پینٹنگ بھی دکھائی دے گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مغلیہ آرٹ میں کلر بہت کول ہوتے ہیں۔ دیکھیں ہندو جو آرٹ استعمال کرتے ہیں، وہ پیلا اور سرخ ہوتا ہے۔ جبکہ اسلامی آرٹ میں نیلا رنگ ڈومینیٹ کرتا ہے۔ جبکہ سرخ رنگ کے بجائے گلابی رنگ استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی زیادہ شوخ نہیں ہوتا۔ اسی طرح سبز رنگ بہت استعمال ہوتا ہے۔ میں نے اس مسجد پر دو ماہ لگائے اور لگاتار آتا رہا ہوں۔ صبح سے شام تک کام کرتا رہا ہوں۔ بعض اوقات رات رات بھر لگا کر کام کیا ہے۔ جب جاکر یہ حصہ مکمل ہوا ہے‘‘۔ عظیم اقبال نے اس حوالے سے حیران کردینے والی بات بتائی، جسے سن کر یقین نہیں ہوتا کہ آج کے دور میں بھی کوئی پینٹر اپنے تن من کے ساتھ ساتھ وہ دھن بھی جو کہیں سے ملتا ہے، وہ بھی واپس اسی جگہ لگادیتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭