نمائندہ امت
برابری پارٹی کے چیئرمین اور معروف گلوکار جواد احمد کے ساتھ گزشتہ روز فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بدتمیزی کی۔ جواد احمد ایک پروگرام میں بطور مہمان مقرر تقریر کر رہے تھے۔ جب انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید کی تو تحریک انصاف کے کارکنوں نے ان سے مائیک چھین لیا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے برابری پارٹی پاکستان کے چیئرمین جواد احمد نے کہا کہ ’’عمران خان بالواسطہ طور پر اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں، جس طرح وہ بد لحاظ ہوکر گفتگو کرتے ہیں اور الزام تراشی کرتے ہیں اس کا اثر ان کی پارٹی کے نوجوان کارکن لیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب ان کا لیڈر ایسا کرسکتا ہے تو وہ کیوں نہیں کر سکتے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اس واقعہ کی مذمت کرنی چاہئے تھی، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے ہمیشہ وزیراعظم نہیں رہنا۔
واضح رہے کہ برابری پارٹی پاکستان کے چیئرمین جواد احمد کو فیصل آباد میں ایک تنظیم نے بطور پارٹی چیئرمین مدعو کیا تھا۔ ’’سوشل میڈیا کنکلیو‘‘ نامی اس ادارے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جواد احمد نے اپنے سیاسی خیالات کا بھی اظہار کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’’عمران خان صرف ایک فیصد طبقے کی نمائندگی اور مفاد کے لئے کام کر رہے ہیں اور 99 فیصد عوام کو ان کے وزیراعظم بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ عمران خان نہ صرف کرپٹ مافیا کے گھیرے میں ہیں، بلکہ نظریاتی طور پر غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے انہوں نے میئر لندن کیلئے انتخابات میں پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان کی بجائے اپنے یہودی برادر نسبتی زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت کی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر وہاں موجود پی ٹی آئی کے بعض کارکن مشتعل ہوگئے اور انہوں نے اسٹیج پر چڑھ کر جواد احمد کے ہاتھ سے مائیک چھین لیا۔ اس طرح کی بدتمیزی کے تجربے سے ناآشنا جواد احمد نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور شرافت سے الگ ہوگئے۔ اس بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جواد احمد نے کہا کہ ’’منتظمیں نے اس طوفان بدتمیزی کے بعد مجھ پر زور دیا کہ میں اپنی بات جاری رکھوں، لیکن اس ماحول میں مناسب نہیں تھا اور نہ میں اس صورت حال کو مزید کشیدہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے منتظمین سے رخصت لے کر وہاں سے روانہ ہوگیا‘‘۔ جواد احمد کا کہنا تھا کہ ’’میں نے جو باتیں کیں وہ خلاف حقیقت نہیں تھیں۔ کیا عمران خان کے دائیں بائیں ایسے افراد نہیں ہیں، جن پر اسی طرح کے کرپشن کے الزامات ہیں جیسے الزامات کا نواز شریف اور آصف علی زرداری کو سامنا ہے۔ عمران خان صبح شام ان کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ جبکہ عمران خان کے ایک قریبی ساتھی کو عدالتیں نااہل قرار دے چکی ہیں۔ ان کے قریبی کئی مزید افراد بھی ہیں جن پر الزامات کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ اس میں سیخ پا ہونے اور ناراض ہونے والی تو کوئی بات نہیں تھی۔ کیا صادق خان کے مقابلے میں عمران خان نے زیک گولڈ اسمتھ کی الیکشن مہم نہیں چلائی۔ سیاست میں سچ بولنے کے ساتھ ساتھ سچ سننے کی بھی جرأت اور ہمت ہونی چاہئے۔ لیکن عمران خان سچ سننے کے عادی نہیں، وہ صرف الزام تراشی کرتے ہیں۔ یہی سبق اب پی ٹی آئی کے بعض کارکنوں نے بھی لے لیا ہے۔ لیکن مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں، یہ نوجوان ہیں، ان کا کوئی قصورر نہیں۔ انہیں تربیت کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ جلد سمجھ جائیں گے اور ان میں سے اکثر آنے والے وقت میں برابری پارٹی پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہوں گے‘‘۔ برابری پارٹی پاکستان کے چیئرمین جواد احمد نے کہا کہ عمران خان اگر سمجھداری اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے تو انہیں اس واقعہ کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایک سوال کے جواب میں جواد احمد نے کہا کہ ’’جن نوجوانوں نے بدتمیزی کی، ان کی فوٹیج موجود ہے اور ان کو پہچان بھی لیا گیا ہے۔ لیکن میں ان کو معاف کردوں گا اور اس پروگرام کے منتظمین کو بھی مشورہ دوں گا کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کریں، کیونکہ یہ نادان لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی قیادت کی غلط روش کو اپنا کر میرے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اپنے رویے اور زبان و بیان پر توجہ دینی چاہئے۔ نوجوان انہیں ووٹ دے کر آگے لائے تھے۔ وہ ان کی کیسی تربیت کر رہے ہیں۔ ان کے جارحانہ اور عدم برداشت کے رویے نے کارکنوں میں رواداری اور حسن اخلاق کا خاتمہ کردیا ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ اس منصب پر نہیں رہنا۔ وہ اقتدار کے ساتھ اخلاقیات کوبھی مدنظر رکھیں۔
٭٭٭٭٭