نجم الحسن عارف
پیپلز پارٹی نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران سکھر ائیرپورٹ سے فلائٹ آپریشن معطل ہونے کا دہرا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو ٹرین کے ذریعے کراچی سے لاڑکانہ لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹرین حکومت مخالف تحریک کی ریہرسل تھی، تاکہ ابھی سے جیالوں کو متحرک کرکے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری کی صورت میں بھرپور احتجاجی تحریک کی تیاری کی جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چار اپریل کو پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر بھی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔ نیز اس احتجاج میں عالمی طاقتوں کو بھی دہشت گردی کے خلاف بیانیے پر متوجہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ٹرین مارچ کا مقصد قطعی طور پر حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف احتجاج نہیں تھا۔ احتجاج کے اسی تاثر سے بچنے کیلئے پارٹی قیادت نے ٹرین مارچ کے بجائے ’’کاروان بھٹو‘‘ کا نام دینے کی منظوری دی تھی۔ کاروانِ بھٹو کے نام کا استعمال کر کے پارٹی کے مرحوم چیئرمین کے ساتھ سندھ کے عوام کی روایتی محبت کو بھی جگانے کی کوشش کی گئی ہے اور عوام کو آنے والے دنوں میں سڑکوں پر لانے کی ریہرسل بھی کرلی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کا سیاسی قد تیزی سے بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کی فوری ضرورت ہے کہ امسال چار اپریل کو گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر پچھلے برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگ جمع ہوسکیں۔ کیونکہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ساتھ چیئرمین بلاول بھٹو، فریال تالپور، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی سمیت پارٹی کے کئی اہم رہنمائوں کے گرد نیب کا گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو کئی روز سے لاڑکانہ میں ہیں اور پہلے مرحلے میں سندھ میں پارٹی کو 4 اپریل کیلئے ’’وارم اپ‘‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارٹی کے بانی چیئرمین کی برسی پر زیادہ سے زیادہ لوگ جمع کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ پیپلزپارٹی اہم ترین ہدف ہے، جس کی تیاری کی جارہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر 10 اپریل کے بعد نوبت سابق صدرآصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال کی گرفتاری تک پہنچتی ہے تو آصفہ بھٹو کو بھی پی پی کی طرف سے میدان میں اتارا جائے گا، تاکہ عوام کی زیادہ حمایت مل سکے۔ ذرائع کے بقول آصفہ بھٹوکو دیکھ کر بلاشبہ عوام کو بینظیر بھٹو یاد آئیں گی اور کم ا زکم پارٹی کے پرانے لوگ اس پر ضرور ریسپانس دیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کی تقریباً پوری قیادت کو ہی براہِ راست یا بالواسطہ انداز میں احتسابی شکنجے میں کسنے کی تیاری نظر آرہی ہے۔ اس پس منظر میں بلاول بھٹو کی جانب سے عوامی رد عمل کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پی پی ذرائع کے مطابق یہ کاوش بڑی کامیاب رہی اور اس سے پارٹی کارکنوں کی موبلائزیشن ہوئی ہے۔ اس کامیاب تجربے کے بعد امکان ہے کہ ضرورت پڑنے پر بلاول بھٹو ملک کے دوسرے حصوں خصوصاً پنجاب میں باقاعدہ ٹرین مارچ کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق ہوسکتا ہے کہ پنجاب میں ٹرین مارچ وقفوں کے ساتھ کیا جائے اور پی پی کے اعلی ترین ذمہ داروں کے خلاف نیب کی جاری سرگرمیوں کے ماحول میں اس امر کا قوی امکان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پی پی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ آصف علی زرداری عوامی یا احتجاجی جلسوں کے آدمی ثابت نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ ٹیبل ٹاک کے دھنی مانے جاتے ہیں۔ اس لیے اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ انہیں ٹرین مارچ کا حصہ بنایا جائے۔ ذرائع کے بقول بلاول کو مثبت عوامی ریسپانس ملا ہے اور کراچی سے شروع ہونے والے ’’کاروانِ بھٹو‘‘ کے دوران ہر ریلوے اسٹیشن پر عوامی جوش و خروش اور انوالومنٹ قابل تعریف تھا۔ ان ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے ٹرین مارچ کے نام پر جو تجربہ حاصل کرتے ہوئے عوامی رابطے سندھ کی حد تک تازہ کیے ہیں اس کے اثرات پارٹی سیاست پر مثبت ہوں گے۔ تاہم زیادہ امکان یہی ہے کہ اگر پارٹی کیلئے احتجاج کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا تو ماہ جون کے بعد ہی اس احتجاج کا امکان زیادہ ہوگا۔ ’’امت‘‘ کو پی پی کے ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی نے آنے والے دنوں میں سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بلاول بھٹو کا کاروانِ بھٹو اسی سلسلے میں ایک ریہرسل تھی، جس کا فائددہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق بلاول نے پارٹی کی طے شدہ پالیسی کے مطابق دہشت گردی کو آئندہ دنوں میں بھی ہدف کے طور پر لینا ہے۔ نیز ’’انجینئرڈ‘‘ قسم کے احتساب کے علاوہ گورننس کے ایشوز کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ ذرائع سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پی پی کی حالیہ سرگرمی اور آنے والے دنوں سے متعلق فیصلے تکلیف پہنچاتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭