مہنگائی نے ادویات کی خریداری بھی مشکل بنادی

0

امت رپورٹ
پی ٹی آئی کی حکومت میں ادویات کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے دوائوں کی قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مگر عملاً متعدد دوائوں کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ مریض ڈاکٹر سے نسخہ لکھواتے ہیں، مگر میڈیکل اسٹور سے خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں کہ دوائیاں خریدنے کی ان میں سکت نہیں۔
واضح رہے کہ جنوری میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ادویہ ساز کمپنیوں کو یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ وہ نئی قیمتیں واضح طور پر تحریر کریں۔ تاہم اس کے بعد دیکھا یہ گیا کہ مارکیٹ سے ضروری اور جان بچانے والی ادویات سرے سے غائب ہی ہوگئیں۔ اب یہ اہم دوائیاں آہستہ آہستہ مارکیٹ میں آنا شروع ہوئی ہیں، لیکن ان کی قیمتوں میں پندرہ، بیس یا تیس نہیں، بلکہ سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ جبکہ بعض دوائوں کی قیمتیں تو دو سو سے تین سو فیصد تک بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔ بلڈ پریشر کی دوائی یوسار پلس کی قیمت پہلے ایک سو اسی (180) روپے تھی۔ جو اب چار سو اسی (480) روپے میں دستیاب ہے۔ دل کی عام استعمال کی دوائی 163 روپے سے بڑھ کر 235 روپے ہو چکی ہے۔ انسولیں سرنج اب 23 روپے میں دستیاب ہے۔ جبکہ پہلے اس کی قیمت سترہ روپے تھی۔ ڈسپرین اور پیراسٹامول جیسی عام استعمال کی دوائیوں کی قیمتوں میں بھی آٹھ سے نو روپے اضافہ ہوا ہے۔ ایسا ہی اضافہ سرجیکل آئٹم میں بھی ہوا ہے۔
ادویات کے کاروبار سے منسلک افراد نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دوائوں کی قیمتوں میں پندرہ نہیں، بلکہ کم از کم ستّر فیصد سے لے کر چار سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ فارما انڈسٹری سے منسلک ذرائع کے مطابق یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ عام شہریوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ بلکہ خود ان کے کاروبار کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے ان لوگوں کا کہنا تھا کہ عوام کی قوت خرید نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے ان کا منافع پہلے کے مقابلے میں کم از کم چالیس فیصد کم ہو چکا ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لوگ ڈاکٹر سے نسخہ لے کر آتے ہیں، مگر وہ میڈیکل اسٹور پر دوائوں کی قیمتیں سن کر خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں۔ میڈیکل اسٹوروں پر لوگوں کا ہجوم تو نظر آتا ہے، تاہم ان میں سے اکثر ادویات کی قیمتیں پوچھ کر چلے جاتے ہیں۔ خریدار چند ہی لوگ ہوتے ہیں۔
’’امت‘‘ کی جانب سے مارکیٹ میں سروے کیا گیا تو اکثر لوگ دوائوں کی کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان نظر آئے۔ ایک شہری ضمیر جان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے لئے ہر ماہ تین ہزار روپے کی اکٹھی دوائیاں خرید لیتا تھا۔ مگر اس مرتبہ جب دوائیں خریدنے کے لئے گیا تو جتنا بل بنا، اس نے اس کے ہوش اڑا دیئے۔ ضمیر جان کے بقول ’’میں جس میڈیکل اسٹور سے دوائیاں خریدتا ہوں، وہ مجھے ذاتی طور پر جانتا ہے۔ لہذا جب دوائوں کی لسٹ اسے دی تو اس نے پوچھا کہ ایک ماہ ہی کی دوائیاں دوں ناں۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے خاموشی سے روٹین کی ادویات نکال کر رکھ دیں۔ اس نے بل دیا تو میں نے بل دیکھے بغیر اسے پانچ ہزار کا نوٹ دے دیا کہ وہ اس میں سے بھی مجھے واپس کرے گا۔ لیکن جب اس مزید نے تین ہزار روپے طلب کئے تو میں ہکا بکارہ گیا۔ میری شکل دیکھ کر میڈیکل اسٹور والا بھی کچھ شرمندہ شرمندہ سے تھا۔ وہ کہنے لگا کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے وہ ذمہ دار نہیں‘‘۔ ضمیر جان کے مطابق اس کے بعد مجبوری میں آدھی دوائیں ہی خرید سکا اور آدھی چھوڑ دیں کہ بعد میں خرید لوں گا۔
ایک اور شہری محمد زاہد کے مطابق ان کے گھر میں بزرگوں کے لئے ہر ماہ کوئی چھ، سات ہزار روپے کی ادویات آتی تھیں۔ مگر اب یہ بجٹ تیرہ چودہ ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔
’’امت‘‘ نے مارکیٹ سے جڑے لوگوں سے رابطہ قائم کرکے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا فارمولہ پوچھنا چاہا تو ہول سیل، ڈسڑی بیوشن اور ریٹیل سے منسلک افراد کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ کس فارمولے کے تحت اتنا اضافہ ہوا ہے۔ دوا ساز اداروں کی تنظیم سے رابطہ قائم کیا گیا تو اس نے اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حکومت اور متعلقہ اداروں سے معلوم کریں۔ ’’امت‘‘ نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے بھی رابطہ کیا مگر بارہا کوشش کے باوجود جواب نہیں دیا گیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More