کراکس (امت نیوز) وینزویلا کے دارالحکومت کراکس میں فوجی پریڈ کے دوران صدر نکولس مدورو مبینہ طور پر ڈرون حملے میں محفوظ رہے ،جبکہ نیشنل گارڈ کے 7 اہلکار زخمی ہوگئے۔ وینزویلین حکام نے حملے کا الزام امریکہ اور پڑوسی ملک کولمبیا پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ صرف صدر ہی نہیں پوری فوجی قیادت کو اڑانے کی کوشش کی گئی ،جو اسٹیج پر موجود تھی ،تاہم دونوں ممالک نےالزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بارود بھرے ڈرونز سے حملہ اس وقت کیا گیا ،جب فوجی پریڈ کے دوران صدر نکولس مدورو خطاب کررہے تھے۔ تفتیش کاروں نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرلیا ہے ،جس سے تحقیقات جاری ہیں۔ بعدازاں صدر نکولس مدورو نے سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ حملہ کولمبیا کے صدر خوان مانوئل سانتوس نے کرایا ہے‘‘۔ایسے شواہد ملے ہیں ،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حملے کی فنڈنگ بوگوٹا اور امریکی ریاست فلوریڈا سے کی گئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈرون میں سی فور دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، تاہم دھماکہ خیز مواد سے بھرے کئی ڈرون ہدف پر پہنچنے میں ناکام رہے اور قریبی علاقوں میں گرے۔ سرکاری طور پر نشر ہونے والی تقریب میں ڈرون نظر نہیں آیا ،البتہ تقریر کے دوران اچانک صدر اور فوجیوں نے اوپر دیکھنا شروع کردیا، دھماکے کی آواز کے ساتھ ہوئی گارڈز نے صدر کو حفاطتی حصار میں لے لیا اور بہت سے فوجیوں کو بھاگتے دیکھا گیا ،جس کے بعد نشریات منقطع ہو گئیں۔ وزیر اطلاعات جارج روڈ ریگز نے بتایا کہ صدر کے قریب بارود سے بھری چیز دھماکے سے پھٹ گئی تاہم وہ مکمل طور پر محفوظ رہے۔ تقریب میں وینزویلا کی اعلیٰ قیادت سمیت 17ہزار فوجی شریک تھے۔ واقعہ میں7 فوجی زخمی ہوئے ،تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ادھر وینزویلا کے ایک انتہائی غیرمعروف اور پراِسرار باغی گروپ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں صدر نکولس مادورو پر ڈرون کے ذریعے حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس سے قبل جون 2017 میں ایک ہیلی کاپٹر حملے میں وینزویلا کی سپریم کورٹ پر گرینیڈ گرائے گئے تھے۔ آسکر پرییز نامی شخص نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وینزویلا کے عوام صدر مدورو کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ وہ جنوری میں کراکس کے قریب پولیس کی کارروائی میں مارا گیا تھا۔ 55 سالہ صدر نکولس مدورو متعدد مرتبہ اپوزیشن اور امریکہ پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ دونوں، ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ’بغاوت‘ کرتے رہے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اگرچہ حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ،تاہم صدر ٹرمپ نے ٹھیک ایک سال قبل ایسا اشارہ دیا تھا کہ وہ وینزویلا کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی بیان میں فوجی ایکشن کو بھی خارج از امکان نہیں قرار دیا تھا۔ امریکی خبر ایجنسی کے مطابق ٹرمپ نے چند ماہ قبل بھی اپنے عسکری مشیران سے دریافت کیا تھا کہ امریکہ وینزویلا میں فوج کشی کیوں نہیں کر سکتا ،تاہم سابق وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور قومی سلامتی کے سابق مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے ان کے ساتھ اتفاق نہیں کیا اور اس کارروائی کے امریکہ پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ اتوار کو ہونے والے ڈرون حملے اور وینزویلین صدر کے الزام پر مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا تھا کہ وینزویلا کے پاس ثبوت ہیں تو شئیر کرے ہم کارروائی کریں گے۔ الزام تراشیوں کے بجائے صدر نکولس کو اپنے ملک میں اور اپوزیشن کو کچلنے کی کوششیں ختم کرنے پر توجہ دیں تو بہتر ہوگا۔خیال رہے کہ صدر نکولس مدورو نے 2013میں اپنے سیاسی حریف کو انتخابات میں شکست دی اور اپنے مخالفین کو الیکٹورل باڈی اور عدالتوں کے ذریعے ’کنارے‘ پر کردیا۔ اس دوران صدر نکولس مدورو کو فوج کی بھرپور حمایت حاصل رہی ،جو حکومت کی حمایت کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔