محمد قاسم
افغان طالبان نے امریکی دھمکیوں کے بعد حملے بڑھا دیئے ہیں۔ قابض فوج نے دھمکی دی تھی کہ اگر مذاکرات کیلئے کابل حکومت کی بات نہ مانی گئی تو افغان طالبان کے خلاف آپریشن تیز کردیا جائے گا۔ امریکی گیدڑ بھپکی کے جواب میں افغان طالبان نے افغانستان کے طول و عرض میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اتحادی افواج سمیت افغان افواج پر بڑے حملے شروع کر دیئے ہیں۔ جبکہ جنوبی مشرقی صوبہ روزگان کے چنارتو ضلع پر قبضے کیلئے محاصرہ کرلیا ہے۔ امریکی اور افغان افواج گزشتہ تین روز سے محاصرہ توڑنے میں ناکام رہی ہیں۔ جبکہ افغان طالبان نے چنارتو کے فوجی اڈے پر قبضہ کر کے 44 افغان فوجیوں کو ہلاک اور 50 کو زندہ پکڑ لیا ہے، جس کے بعد افغان اہلکاروں نے امریکا سے مدد طلب کرلی ہے۔ تاہم امریکا اور افغان فوج مل کر بھی آخری اطلاعات تک چنارتو کا محاصرہ توڑنے میں ناکام تھیں۔ گزشتہ دو روز میں افغان طالبان نے بگرام میں امریکا اور نیٹو افواج کے دو قافلوں کو نشانہ بنا کر امریکا کو پریشان کر دیا ہے کہ طالبان اب نیٹو افواج کے ان پٹرولنگ کرنے والے فوجیوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو بگرام ایئر بیس کے ارد گرد گزشتہ سترہ سال سے پٹرولنگ کر رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس سے امریکا حواس باختہ ہو گیا ہے کہ افغان طالبان آہستہ آہستہ مقامی آبادی میں نہ صرف سرائیت کر گئے ہیں، بلکہ ان کی حکمت عملی میں اب تبدیلی آ رہی ہے اور فدائی حملوں کی جگہ اب طالبان رات کے اندھیرے میں ریموٹ کنٹرول بم نصب کر کے بھی امریکی فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ دو روز میں افغان طالبان کے حملوں میں چیک ری پبلک اور امریکا کے تقریباً آٹھ فوجی مارے گئے ہیں، جبکہ دو افغان مترجم بھی نشانہ بنے۔ بگرام گزشتہ سترہ سال سے امریکا کے قبضے میں ہے اور اس حوالے سے امریکا نے مکمل کنٹرول بگرام پر رکھا ہے۔ تاہم اب طالبان بگرام اڈے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور پہلی بار راکٹ حملوں اور خودکش حملوں کے بجائے ریموٹ کنٹرول بم استعمال کئے گئے ہیں، جس پر امریکی حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ گشت سے پہلے افغان فوجیوں کے دستے تعینات کئے جائیں گے کہ اگر دھماکے ہوں تو نقصان افغان فوجیوں کا ہو اور امریکی اور نیٹو فوج بچ جائیں۔ تاہم افغان طالبان نے بگرام تک رسائی حاصل کرکے امریکی حکام کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ افغان طالبان نے حملوں میں تیزی امریکا اور افغان نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد امریکا کی جانب سے دی جانے والی دھمکی کے نتیجے میں آئی ہے۔ دوسری جانب افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کابینہ کے اجلاس میں افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان مذاکرات پر وزرا کو بتایا کہ امریکی سفارت کاروں اور طالبان رہنمائوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں اور افغان حکومت اس سے باخبر ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کا یہ مطالبہ ہے کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔ اس سے قبل افغان حکومت نے اس امرکا انکار کیا تھا کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے بیان سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کے نمائندوں کی بات چیت سے باخبر ہے۔ دوسری جانب ’’امت‘‘ کو اطلاعات ملی ہیں کہ سترہ سال میں پہلی بار افغان طالبان اور امریکی اعلیٰ حکام کے درمیان قطر میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ یہ مذاکرات دو روز تک جاری رہے اور آئندہ کیلئے مذاکرات پر بھی رضامندی ظاہر کی گئی۔ دوسری جانب افغان طالبان نے امریکہ کو دبائو میں لانے کیلئے حملے بڑھادیئے ہیں۔ افغانستان کے شمالی صوبہ فراہ میں افغان طالبان مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔ وہاں کے علما و مشائخ، قبائلی مشران اور عام لوگوں کے جرگہ نمائندوں نے اجلاس کیا ہے۔ جس میں امریکا سے افغانستان سے فوری طورپر انخلا کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس مقامی عمائدین کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔ مشران نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان سے انخلا کا ٹائم ٹیبل دے تاکہ افغانستان میں مزید خون ریزی کو روکا جا سکے۔ اجلاس میں افغان طالبان سے مذاکرات کرنے والے وفد کے سربراہ الحاج محمد رسول نے طالبان کی جانب سے جرگے کو بتایا کہ بخش آباد ڈیم کی تعمیر پر طالبان نے نہ صرف رضا مندی ظاہر کر دی ہے بلکہ تحریری طور پر اس بات کی ضمانت دی ہے کہ بخش آباد ڈیم پر کام کرنے والوں کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ تاہم ڈیم کے ڈیزائن اور تمام منصوبے سے طالبان کو آگاہ کیا جائے کہ ڈیم سے کتنی بجلی پیدا ہو گی اور عوام کو کتنا فائدہ ہو گا اور کتنے ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ ٭
٭٭٭٭٭