اسلام آباد( رپورٹ:محمد فیضان/ مانیٹرنگ ڈیسک) عام انتخابات کے انعقاد کو 12 روز گزرنے کے باوجود عددی طاقت دکھانے میں تحریک انصاف ناکام ہو گئی۔ 125 ارکان لانے کا دعوی کھوکھلا نکلا۔ عمران خان کی جماعت نے اعلان کیا تھا کہ پیر کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا، تاہم 8 آزاد ارکان کی شمولیت کے باوجود پہلے اور اہم ترین پارلیمانی اجلاس میں 100 منتخب نمائندے بھی جمع نہ ہوسکے۔ اجلاس میں اہم عہدوں اور وزارتوں کا فیصلہ کیا جانا تھا، لیکن اسلام آباد کے ہوٹل میں ہونے والا اجلاس عمران خان کی بطور وزیر اعظم نامزدگی کا اعلان کر کے ختم ہوگیا، حالانکہ یہ بات انتخابات سے پہلے ہی اظہر من الشمس تھی کہ وزارت عظمی کی خواہش نہ رکھنے کے دعوؤں کے باوجود عمران خان کسی اور کو اس منصب پر آنے نہیں دیں گے۔ پریس کانفرنس کے دوران وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر کہا کہ اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سمیت مرکز یا صوبوں میں کسی اورعہدے پر تقرری کا فیصلہ نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر دن بھر یہ قیاس آرائیاں چلتی رہیں کہ شاہ محمود قریشی کو اسپیکر قومی اسمبلی جب کہ عمران اسمعیل کو گورنر سندھ نامزد کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب مرکزی ترجمان فواد چوہدری نے اتحادیوں سے مذاکرات جاری رہنے کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت سازی میں تعطل کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا اور دعوی کیا ہے کہ کم و بیش20 حلقوں کے نتائج روکے گئے ہیں، جس کی وجہ سے انتقال اقتدار کا عمل مؤخر ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس معاملے کا نوٹس لیں۔ جمہوری عمل میں تاخیر نقصان دہ ہوگی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے اب تک صرف 3 حلقوں کے نتائج روکے ہیں، جن میں لاہور سے عمران خان کا حلقہ این اے 131، سیالکوٹ سے خواجہ آصف کا حلقہ این اے 73 اور فیصل آباد سے رانا ثنا اللہ کا حلقہ این اے 106 شامل ہے۔ اس طرح عملاً صرف 2 نشستوں کا ہی مسئلہ ہے، کیونکہ عمران کا ایک ہی ووٹ شمار کیا جائے گا، جب کہ وہ مزید 4 نشستوں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پیر کو اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔جس میں شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی بطور پارلیمانی رہنما تقرری کی تحریک پیش کی۔ملک بھر سے آئے نو منتخب اراکین اسمبلی نے کھڑے ہو کر اس تحریک کی حمایت کی۔اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے بطور وائس چیئرمین قرارداد پیش کی، جسے تمام پارلیمانی پارٹی نے منظور کر لیا۔اس سے ظاہر ہوا کہ عمران خان ہمارے وزیرِ اعظم کے امیدوار ہیں۔ جس جماعت کے وجود پر لوگ انگلیاں اٹھاتے تھے آج وہی جماعت پالیمان میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، جس کی نمائندگی وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں ہے۔ جو جماعتیں اپوزیشن بنا رہی ہیں ان میں نظریاتی یکسانیت نہیں ،تحریک انصاف کا خوف ہی ان جماعتوں کو یکجا کر رہا ہے۔انہوں نے صحافیوں کو آگاہ کیا کہ اجلاس میں عمران خان نے نو منتخب ممبران کو مبارکباد پیش کی اور ان کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے آئندہ آنے والے دنوں کے چیلنجوں کے بارے میں اعتماد میں لیا اور ان سے کہا کہ آپ سے قوم کی توقع کیا ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کسی اور عہدے پر تقرری کا موضوع زیرِ بحث نہیں آیا اور اس سلسلے میں میڈیا پر چلنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک بیان میں کہا کہ پارٹی میں عہدوں کے معاملے پر نہ تو کوئی اختلاف ہے اور نا ہی اس حوالے سے کوئی اعلان کیا گیا ہے۔ جب بھی کو ئی فیصلہ ہوگا مرکزی میڈیا سیل عمران خان کی اجازت سے اس کی ا طلا ع سب کو دے گا۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ قیاس آرائیوں سے گریز کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان پا رٹی کے لیڈر ہیں وہ جہاں کسی کو رکھیں گے وہ جگہ وہ قبول کرے گا۔دریں اثنا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 1970 میں عوام نے مستحکم سیاسی اشرافیہ کو شکست دی تھی اور تقریباً نصف صدی بعد 2 جماعتی نظام بھی ٹھکانے لگا دیا گیا۔ ایسا تاریخ میں شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ دو جماعتی نظام میں تیسری جماعت کو موقع ملے۔لیکن عوام تبدیلی کے لیے نکلے اور اپنا فیصلہ سنایا اور پورے ملک میں جہاں امیدوار کا چہرہ تبدیلی سے نہیں ملتا تھا اسے مسترد کر دیا۔اب ہم پر بالخصوص مجھ پر سب سے بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے، تحریک انصاف کا اقتدار چیلنجز سے بھر پور ہے، عوام ہم سے روایتی طرز سیاست و حکومت کی امید نہیں رکھتے اور اگر روایتی طرز حکومت اپنایا تو عوام ہمیں بھی غضب کا نشانہ بنائیں گے، عوام آپ کا طرز سیاست اور کردار دیکھیں گے اور اس کے مطابق رد عمل دیں گے۔عمران خان نے نو منتخب اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے پروٹوکول نہ لینے اور شاہ خرچیاں ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ آپ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں اللہ آپ کو وہ عزت دے گا، جس کا تصور بھی ممکن نہیں، جبکہ میں خود مثال بنوں گا اور آپ سب کو بھی مثال بننے کی تلقین کروں گا۔آپ نے عوام کے پیسے کو اللہ کی امانت سمجھنا ہے، آپ نے قوم کا پیسہ بچانا ہے تاکہ عوام کی فلاح پر خرچ کیا جاسکے، میں فیصلے میرٹ پر اور قوم کے مفاد کے لیے کروں گا۔عمران نے اپنے خطاب میں پھر دہرایا کہ میرا مقصد وزیراعظم یا ایم این اے بننا نہیں، قوم سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہیں، ملک کو مالی بحران سے نکالنا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں سے رجوع کرینگے، کارکردگی کے پہلے 6ماہ انتہائی اہم ہیں، اگر خدمت نہ کر سکے تو اے این پی سے بھی برا حال ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں آپ سے اس بات کا تقاضا کبھی نہیں کروں گا، جس پر میں خود عمل نہ کروں، برطانوی طرز پر ہر ہفتے ایک گھنٹہ سوالات کے جواب دوں گا ۔ وزرا کو بھی صحیح معنوں میں جوابدہ بنائیں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں آج اخلاقی طور پر کمزور ترین اپوزیشن کا سامنا ہے ،حزب اختلاف کے پاس مولانا فضل الرحمان تو ہیں مگر اخلاقی و روحانی قوت نہیں،آج اللہ نے آپ کو اخلاقی برتری دی ہے۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی پارلیمانی پا رٹی کی میٹنگ میں بھی نو منتخب ارکان قومی اسمبلی کی تعداد حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد سے کم تھی اس لیے تحریک انصاف کی طرف سے پا رٹی میں شریک منتخب ارکان ا سمبلی کی تعداد بتانے سے گریز کیا گیا ۔اجلاس میں اتحادی پا رٹیوں کے ارکان نے شرکت نہیں کی تاہم پی ٹی آ ئی میں شامل ہو نے والے 8 آزاد ارکان اس میں شامل تھے۔ مجموعی طور پر 100 منتخب ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہو ئے، جبکہ ان کے علاوہ سینیٹرز اور مخصوص نشستوں کی امیدوار خواتین اور اقلیتی نمائندے بھی موجود تھے ۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے یہ کہتے ہوئے کہ قومی اسمبلی کے 20حلقوں کے نتائج رکنے پر تحریک انصاف کی حکومت ساز ی کا عمل معطل ہوگیا اس بات کو بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا کہ حاضری کم تھی اور یہ کہ انہیں نمبرز گیم پورے کرنے میں مشکلات ہو رہی ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ 20 حلقوں کے انتخابی نتائج روکے گئے ہیں، جس کی وجہ سے انتقال اقتدار میں تاخیرہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس سے استدعا ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں، کم و بیش 20 حلقوں کے نتائج انتظامی یا عدالتی وجوہات کی بنا پر روکے جانا انتہائی نا مناسب ہے۔ 48 حلقوں میں پہلے ہی ری کاؤنٹنگ کی جا چکی ہے۔ انتخابی نتائج میں اس قسم کے تعطل سے انتقال اقتدار موخر ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ جو جمہوری عمل کیلئے نقصان دہ ہے۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے پی ٹی آ ئی کے ترجمان فواد چو ہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ اسمبلی میں ہمیں 180 یا 182 ارکان کی حمایت حا صل ہو گی اور کہا ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کے منتخب ارکان اور خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستیں ملا کر پی ٹی آ ئی کے اپنے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 149 بنتی ہے اوراس میں سے پی ٹی آ ئی کی 6 دہری نشستیں نکال دی جائیں تو یہ تعداد 143 رہ جا تی ہے جب کہ آزاد 8 ارکان ہمارے ساتھ شامل ہو چکے ہیں اس طرح ہمارے ارکان کی تعداد 151 تک جا پہنچی ہے ،جبکہ حکومت سازی کے لیے 172ارکان کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں 21 مزید نشستوں کی ضرورت ہے ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے7 ارکان، ق لیگ کی 3 نشستیں ،باپ کی 5 اور بی این پی عوامی بھی ہمارے سا تھ ہیں اس کے علا وہ بی این پی مینگل کی ایک اور جی ڈے اے کے ساتھ 2 نشستوں کے لیے بات چیت چل رہی ہے، جبکہ جمہوری وطن پارٹی کے سا تھ با ت چیت ہو گئی ہے اس وقت کل 4 آزاد امیدوار ہیں، جن میں سے 2 کا تعلق فاٹا سے اور 2 کا دیگر حلقوں سے ہے امید کہ وہ بھی ہماری حمایت کریں گے انہوں نے کہا کہ ا ختر مینگل سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی بات ہو گئی ہے وہ آج ( منگل) اسلام آباد آرہے ہیں۔ امید ہے کہ ان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اجلاس سے قبل میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان الیکشن جیت کر آئی ہے تاہم ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت سازی ایک بہت ہی مشکل عمل ہے۔
٭٭٭٭٭