پشاور/ سوات (نمائندہ امت/ بیورو رپورٹ) خیبر پختون کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں پرویز خٹک گروپ بازی لے گیا۔ تحریک انصاف سربراہ عمران خان نے ارب پتی محمود خان کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ تبدیلی کی بات کرنے والے پی ٹی آئی سربراہ کا پہلا انتخاب ہی متنازعہ نکلا، عام لوگوں کو اوپر لانے کے اور شفافیت کے دعوے بھی دھرے رہ گئے۔ عمران خان نے خیبر پختون کیلئے نیا وزیر اعلیٰ ایک ایسا آدمی چن لیا، جو 150 دکانوں، قیمتی زرعی اراضی سمیت ڈھائی ارب مالیت کے اثاثوں کا مالک ہے اور جسے خود پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ایک بار کرپشن الزام میں وزارت سے برطرف کر چکی تھی۔ واضح رہے کہ وزارت اعلیٰ کے لئے تحریک انصاف سربراہ کا پہلا انتخاب عاطف خان تھے، لیکن سابق وزیر اعلیٰ نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ پرویز خٹک اور اسد قیصر نے گزشتہ دنوں ارکان صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اپنی طاقت دکھا دی تھی، جس کے بعد عمران کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور پرویز خٹک کے تجویز کردہ نام کی منظوری دے دی گئی۔ بعض ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ محمود خان کا نام پرویز خٹک نے نہیں مراد سعید کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کی کابینہ میں محمود خان کھیل، سیاحت، میوزیم اور ثقافت کے وزیر تھے۔2013 میں انہوں نے اپنی وزارت کا حلف اٹھایا اور ایک برس بعد ہی 2014 میں ان پر کرپشن کے الزامات لگے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود خان نے 18لاکھ روپے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرائے تھے۔ جس کا پتہ چلنے پر ان سے وزارت واپس لے لی گئی، تاہم انکوائری میں وہ کلئیر ہوگئے اور تمام ملبہ وزارت میں کام کرنے والے کچھ بیورو کریٹ پر ڈال دیا گیا، جس کے بعد انہیں ایک بار پھر وزارت مل گئی۔ جون 2014میں انہیں ابلاغیات کا اور بعد ازاں داخلہ اور قبائلی امور کا وزیر بنادیا گیا۔ دریں اثنا ‘‘امت’’ سے گفتگو کرتے ہوئے محمود خان نے کہا کہ ان کے دو ڈھائی ارب کے اثاثے ضرور ہیں، لیکن یہ خاندانی اثاثے ہیں، جس میں دوسروں کا بھی حصہ ہے۔ صوبدایدی فنڈ سے رقم ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے18 لاکھ کا الزام لگا تھا جس پر کمیٹی بنی اور 3 افسران کو برطرف کر دیا گیا، کیونکہ تکنیکی طور پر سرکاری خزانے سے میرے اکاؤنٹ میں رقم جا ہی نہیں سکتی تھی۔ محمود خان کا کہنا تھا کہ یہ پرانی بات ہے، تاہم وہ اس حوالے سے تفتیش کے لیے ہر وقت حاضر ہیں۔ عمران خان کا سپاہی ہوں، ان کے وژن کے تکمیل کیلئے دن رات کام کروں گا اور پارٹی کے منشور پر من و عن عمل کروں گا۔ ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ صوبے کے عوام کو مایوس نہیں کروں گا۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ تحریک انصاف صوبے میں ماضی سے بھی مزید بہتر کارکردگی دکھائے گی۔ الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی فارم میں جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق محمود خان کے اثاثوں کی مالیت 2ارب 51کروڑ 67لاکھ روپے ہے۔ ان کے پاس 4کروڑ روپے بینک بیلنس بھی موجود ہے۔ وہ 87 کنال زرعی اراضی اور 150دکانوں کے مالک ہیں۔ محمود خان کے گھر میں ڈیڑھ کروڑ کا فرنیچر ہے، جبکہ اہلیہ کے پاس 35تولے سونا ہے۔ ادھر ملاکنڈ میں تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود خان کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کا فائدہ سوات کے پسماندہ علاقوں کو ہوگا اور امید ہے کہ یہاں ترقی ہوگی۔ محمود خان کا تعلق بھی سوات کی تحصیل مٹہ سے ہے۔ وہ 1972 میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سوات کے علاقہ خوازہ خیلہ میں سرکاری سکول سے حاصل کی، جبکہ میٹرک اور ایف ایس سی پشاور پبلک اسکول سے کیا، انہوں نے ایم ایس سی ایگریکلچر کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے مکمل کی۔ وہ 2008 میں بلدیاتی انتخابات میں آزاد حیثیت سے یونین کونسل خریڑئی کے ناظم منتخب ہوئے، ان کا خاندان پہلے پی پی پی میں تھا، لیکن 2012میں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی، 2013 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 84 (موجودہ پی کے9) سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ محمود خان نے پرویز خٹک کی کابینہ میں وزیر کھیل، امور نوجوانان و آبپاشی فرائض انجام دیئے، جبکہ 2 ماہ کے لئے صوبائی وزیر داخلہ بھی رہے۔ محمود خان کے ایک بھائی عبداللہ تحصیل ناظم مٹہ ہیں، جبکہ دوسرے بھائی احمد خان ضلعی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیبر پختون کی تاریخ میں پہلی بار کسی برسراقتدار جماعت پر لوگوں نے دوبارہ اعتماد کیا ہے۔ لیکن صوبے میں دو تہائی اکثریت کے باوجود پارٹی رہنماؤں میں رسہ کشی کے باعث نئے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی میں 14روز لگ گئے۔ محمود خان کی نامزدگی کا اعلان ہوتے ہی سوات بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور محمود خان کی رہائش گاہ پر مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ اس موقع پر کارکنوں میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد (نمائندہ امت) تحریک انصاف نے پنجاب میں حکومت سازی کے لیے نمبر پورے کر لیے، بدھ کو پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں آزاد ارکان سمیت 164 نومنتخب ارکان صوبائی اسمبلی نے شرکت کی، جبکہ سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایوان میں ہمارے ارکان کی تعداد180 سے 186 کے درمیان ہوگی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیلئے ایک نیا نوجوان لارہا ہوں، جو بالکل کلین ہوگا۔ اس پر کسی قسم کا کوئی سوالیہ نشان نہیں ہوگا۔آپ سب اس نوجوان کو سپورٹ کریں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے اگرچہ کسی نام کا اعلان نہیں کیا، تاہم اس ضمن میں چکوال سے منتخب نوجوان رکن پنجاب اسمبلی راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کے امکانات زیادہ بتائے جاتے ہیں۔کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی فیصل واڈا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ پی پی 21 چکوال ون سے منتخب نوجوان سیاستدان راجہ یاسر کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کرسکتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں عمران خان نے مزید کہا کہ پنجاب میں الیکشن بہت مشکل تھا، جہاں اصل جنگ ہے اور مدمقابل نون لیگ ہے۔ نئے پاکستان کا آغاز بڑے صوبے سے ہی ہوگا۔ ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، سب تیار رہیں، میں جوان اور تجربہ کار کابینہ کی ٹیم لے کر آرہا ہوں۔ لوگوں سے عہد کیا ہے کہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنائیں گے، جہاں میرٹ اور انصاف کا نظام موجود تھا، اس عہد کو پورا کرنے کے لیے سب نے ملکر کام کرنا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ 1970 کے بعد پہلی مرتبہ عوام نے نظریے کو ووٹ دیا ہے، اب نومنتخب نمائندوں پر منحصر ہے کہ وہ باعزت سیاست کریں یا روایتی سیاست کی جانب لوٹ جائیں۔ مستقبل میں عوام نظریے کو ووٹ دیں گے اور اپنی ذات اور خاندان کے مفادات کی آبیاری کرنے والوں کو مسترد کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اس وقت تک ناقابل تسخیر تھی، جب تک نظریے سے جڑی رہی، آصف علی زرداری نے نظریے سے خود کو الگ کیا تو یہ جماعت ریزہ ریزہ ہو گئی، نون لیگ کا شیرازہ بھی بکھرنے کو ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت پہلے 100دنوں میں وہ کام کرے گی جس سے اپوزیشن پارٹیوں کا وجود منتشر ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘مجھے کیوں نکالا’’ مہم کا پورا خلاصہ یہ ہے کہ مجھ سے پوچھنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ مسلم لیگ نون کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5برسوں میں 5 کارپوریشنز نے 3400 ارب روپے برباد کر دیئے، لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے سب سے بڑا عذاب ٹکٹ دینا تھا اور ہم نے ٹکٹ دینے کے عمل کو مزید بہتر کرنا ہے، جہاں ہماری کمزوری ہے۔ اس حلقے میں ابھی سے کام شروع کرنا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ہم نے پارٹی کو ایک ادارہ بنانا ہے، یہ کوئی عام پارٹی نہ ہو جہاں پر سفارش ہو، سب سے زیادہ ذمہ داری پنجاب والوں پر ہے۔ پنجاب پولیس میں کے پی پولیس کے طرز کی اصلاحات لائیں گے، پنجاب پولیس کو غیر سیاسی اور خود مختار بنائیں گے۔
٭٭٭٭٭