یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ نواب مرزا نے ماں سے اس قدر کھل کر اور اس قدر اعتماد کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ وزیر کے سینے میں فخر اور امتنان کی ایک شمع سی روشن ہوئی، لیکن نواب مرزا کے آخری فقرے کے معنی اس کی روح میں شعلہ بن کر چمکے۔
’’مجھے آغا صاحب شہید مرحوم کی املاک یا ان کا ترکہ نہ چاہئے‘‘۔ اس نے سر اٹھا کر کہا۔ ’’لیکن ان کی یادگار جسے میں نے جان دے کر اپنے اندر پالا اور پیٹ کے باہر گلاب کے شگوفے کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھا، اسے کیوں چھوڑ دوں اور کس دل سے چھوڑ دوں؟ نواب مرزا آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘۔
نواب مرزا کو محسوس ہوا کہ میں نے فیصلہ کن بات کہنے میں غیر ضروری تعجیل کی۔ ’’میں کچھ نہیں چاہتا اماں جان‘‘۔ اس نے ذرا محجوبی کے ساتھ کہا۔ ’’مجھے صرف آپ کا سکون دل منظور ہے۔ میں آپ کو رنجیدہ نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
وزیر نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’مجھے تو لگتا ہے اللہ میاں نے مجھے ایسے ہی کسی لمحے میں بنایا تھا، جب بدنصیب ہی بدنصیب بنائے جا رہے تھے‘‘۔
’’ہر بات کے دو رخ ہوتے ہیں صاحب‘‘۔ نواب مرزا نے گفتگو کو ذرا شگفتہ بنانے کی کوشش میں کہا۔ ’’نصیب نہ ملے عقل تو ملی، اور حسن ذاتی اس پر مستزاد‘‘۔
’’ایسی عقل سے کودن ہونا بہتر اور ایسی صورت جائے بھاڑ میں۔ اپنے جگر گوشوں کو چھاتی سے لپٹا سکوں نہ اپنے قدر داں کے پہلو میں بیٹھ سکوں، نواب مرزا آپ مجھے بچہ سمجھتے ہیں کیا‘‘۔
نواب مرزا سے کوئی جواب نہ پڑا۔ ایک دو ثانیہ چپ رہ کر اس نے کچھ اور بات چھیڑنے کی کوشش کی۔ ’’میں ابھی منجھلی خالہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے جا رہا تھا۔ وہ آپ کو بھی یاد کر رہی تھیں۔ آپ چاہیں تو تشریف لے چلیں۔ میں پالکی منگوائے لیتا ہوں‘‘۔
’’وہاں جاکر کیا نئی بات ہو جاوے گی محمد آغا تو یہاں ہیں‘‘۔
’’وہی، لیکن ذرا اس گھر کی تنگ فضا سے نکلیں تو کیا قباحت ہے‘‘۔
’’جانے والا تو مجھے اسی گھر میں چھوڑ گیا۔‘‘ وزیر کے لہجے میں تلخی تھی۔ گویا آغا مرزا تراب علی نے جان بوجھ کر موت کو گلے لگایا تھا۔
’’لیکن آپ اس گھر میں بند تو نہیں ہیں‘‘۔ نواب مرزا نے ذرا تیز لہجے میں کہا۔
وزیر نے کچھ جواب نہ دیا لیکن نواب مرزا کو اس نے عجیب سی نگاہوں سے دیکھا، گویا کہہ رہی ہو، ہر بات ہر شخص کے سمجھنے کی نہیں ہوتی۔ نواب مرزا اندر ہی اندر لڑکھڑا گیا۔ اب کیا کہوں اور کیا نہ کہوں، جو بات بھی اس وقت میرے منہ سے نکلتی ہے الٹا ہی کام دکھاتی ہے۔ وہ کوئی مناسب بات سوچ ہی رہا تھا کہ وزیر نے ذرا خشک لہجے میں کہا ’’آپ منجھلی باجی کے یہاں شوق سے تشریف لے جائیں لیکن مجھے ان کے یا اپنے خیالوں کا پابند نہ سمجھیں‘‘۔
نواب مرزا ایک لحظے کے لئے چکرا گیا۔ کیا اماں جان نے میرے ارادے جان لئے ہیں؟ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ لیکن اب نہیں تو تب، بات ان کے سامنے کھول کر رکھنی ہی پڑتی، لہٰذا اب ہی سہی۔ مگر… خالہ جان سے استصواب بھی تو ضروری ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو جائے کہ اماں یہاں سے اٹھ کر خالہ صاحب کے پاس چلی آویں۔ انہوں نے ایک بار پہلے کہا بھی تھا۔ لیکن اماں جان کیا برادر خورد کو یہاں چھوڑنے پر راضی ہو جاویں گی…؟ یہ سارا قضیہ تو اسی بات کا معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے کو وہ لوگ رجھاکر اپنا کرلینا چاہتی ہیں۔
ابھی وہ انہیں خیالوں میں گم تھا کہ وزیر نے کچھ بیٹھے ہوئے گلے کے لہجے میں کہا ’’نواب مرزا صاحب، آپ کی ہر بات سر آنکھوں پر، لیکن آپ یہ نہ سمجھئے کہ آپ ماں کی آتما اور بچے کے تئیں اس کے درد کو سمجھ سکتے ہیں‘‘۔
’’ حاشا میں ایسی گستاخی کا مرتکب نہیں ہو سکتا…‘‘۔ نواب مرزا نے گھبرا کر جواب دیا۔ لیکن وزیر نے گویا اس کی بات سنی ہی نہیں، جیسے وہ کسی اور ہی عالم میں تھی۔ ’’آپ میرے جگر کے ٹکڑے ہیں، لیکن آپ اول و آخر مرد ہیں۔ مرد ذات سمجھتی ہے کہ ساری دنیا کے اسرار اور تمام دلوں کے نہاں گوشے اس پر منکشف ہیں، یا اگر نہیں بھی ہیں تو نہ سہی، لیکن وہ سب کے لئے فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔ مرد خیال کرتا ہے کہ عورتیں اسی نہج اور مزاج کی ہوتی ہیں، جیسا اس نے اپنے دل میں اپنی بہتر فہم و فراست کے بل پر گمان کر رکھا ہے‘‘۔ وہ ایک پل کو چپ رہی، پھر بولی۔ ’’اور اگر عورتیں اس نہج اور مزاج کی نہیں بھی ہیں تو یہ سہو مرد ذات کا نہیں، عورت ذات کا ہے، کہ وہ ویسی کیوں نہ ہوئی جیسی کہ مرد چاہتا یا سمجھتا ہے‘‘۔
وزیر کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور اس کی آواز بلند ہو گئی تھی۔ ’’اللہ آغا مرزا صاحب شہید کو کروٹ کروٹ جنت بخشے، لیکن انہیں گمان تھا کہ مرد کا درجہ عورت سے بلند تر ہے۔ عورت محکوم ہے اور شوہر حاکم‘‘۔
اب نواب مرزا نے ہمت کر کے قطع سخن کیا اور دھیمی آواز میں بولا ’’اماں جان، مجھے خدا نے مرد بنایا اور شریعت اور رواج نے مجھے کچھ باتیں سکھائیں، لیکن سب کے علی الرغم میں نے ہمیشہ یہی کہا اور سمجھا کہ میری ماں کا قول، میری ماں کا خیال، میری ماں کا فیصلہ، سب مردوں پر مقدم ہے۔ جب منجھلی خالہ اور پھوپھی صاحب نے مجھ سے آپ … آپ کے… آپ کے بارے میں بات کی تو میں نے یہی جواب دیا کہ میری اماں جو چاہیں وہی صواب ہے‘‘۔
’’یہ آپ کی سعادت مندی ہے بچے میاں۔ لیکن رواج اور شریعت، بلکہ شریعت کے غلط مطلب نکالنا اور پھر ان غلط معنی پر لوگوں کے بے سوچے سمجھے عمل کی مثالیں ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور برا نہ مانیں، آپ بھی اس سے عاری نہیں ہیں، آخر…‘‘۔
’’معافی چاہتا ہوں آپ کا قطع کلام ہوتا ہے‘‘۔ نواب مرزا نے بے چینی سے کہا۔
’’ نہیں۔ میں آپ کا قطع کلام کرتی ہوں اور پوچھتی ہوں کہ آپ نے یہ نتیجہ کیوں کر نکالا کہ میری مشکل کی کشائش آپ کا فرض ہے؟‘‘۔
نواب مرزا اب بالکل ہی ذہنی انتشار کے عالم میں تھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، کوئی لفظ ادا نہ ہو سکا۔ تھوڑی دیر کے سکوت کے بعد اس نے اپنی ہتھیلیاں اور پھر پیشانی خشک کی اور رک رک کر بولا ’’جی… جی، وہ… ایسا ہے کہ میں آپ کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا۔ شاید … بیٹے اور بہن کا… یہ شاید فرض نہیں ہے کہ ماں یا بہن کی مشکل میں ان کے کام آئیں؟‘‘۔
’’لیکن بیٹا ماں ماں کو، یا بہن بہن کو معذور کیوں سمجھے؟ یہ کیوں قرار دیا جائے کہ عورت ہے، اس لئے اس کی مشکل کوئی مرد ہی، یا کوئی اس کا بزرگ ہی حل کر سکتا ہے؟‘‘۔
نواب مرزا بالکل سٹپٹا گیا۔ اس نے کبھی خیال ہی نہ کیا تھا کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ آخر بیٹا ہوتا کس لئے ہے؟ ماں کی دستگیری بیٹا نہ کرے گا تو کون کرے گا؟ وزیر نے شاید اس کے دل میں اٹھتے ہوئے خیالات، بلکہ وہ الفاظ ہی پڑھ لئے اور ذرا سمجھانے کے لہجے میں بولی ’’ذرا سوچئے، اگر آپ ماں کی جگہ باپ کو مشکل میں دیکھتے تو بھی یہ قرار دے لیتے کہ باپ کی دستگیری میرا فرض ہے؟‘‘۔
نواب مرزا نے بالکل اضطراری اور غیر ارادی طور پر کہا ’’جی نہیں۔ بالکل نہیں۔ مرد تو اپنے معاملات…‘‘۔
یہ کہتے کہتے اس نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا۔ لا حول ولا قوۃ، یہ کیا بیان ہے۔ اماں جان یہی تو کہہ رہی ہیں کہ آپ مرد ہیں، آپ کو یقین ہے کہ سارا کار دنیا آپ ہی کے سہارے چلتا ہے۔
’’جی، دیکھا آپ نے بچے میاں‘‘۔ وزیر نے کچھ رنجیدہ اور تلخ تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’آپ جوش محبت میں مجھے سب پر فوقیت دے لیں تو دے لیں، لیکن آپ کی عقل آپ کو کچھ اور راہ سجھاتی ہے‘‘۔
’’لیکن … لیکن شریعت بھی تو کہتی ہے کہ مرد کو عورت پر فوقیت ہے‘‘۔ نواب مرزا نے کچھ گڑبڑا کر کہا۔ ’’ہماری کتابیں تو یہی کہتی ہیں، ہمارے بزرگ تو یہی سکھاتے ہیں‘‘۔
’’آپ کی کتابوں کے مصنف سب مرد، آپ کے قاضی مفتی بزرگ بھی کون، سب کے سب مرد۔ میں شرعی حیثیت نہیں جانتی، لیکن مجھے بابا فرید صاحب کی بات یاد ہے کہ جب جنگل میں شیر نمودار ہوتا ہے تو کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ شیر ہے یا شیرنی۔ آخر حضرت رابعہ بصری بھی تو عورت تھیں‘‘۔
’’وہ تو ولی اللہ تھیں‘‘۔
’’جی ہاں۔ اور میں ایک بے خدا، دنیا دار بندی جس کا بال بال گناہوں سے پرویا ہوا ہے‘‘۔
’’اماں جان خدا کے واسطے یہ میری بات کو یوں توڑ موڑ کر نہ بیان کریں‘‘۔ نواب مرزا ہاتھ ملتا ہوا تقریباً روہانسا ہو کر بولا۔
وزیر کی مامتا فوراً جوش میں آ گئی۔ آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو لئے وہ اٹھی اور اس نے چٹا چٹ نواب مرزا کی بلائیں لے ڈالیں۔ ’’ہائے ہائے اللہ مجھے معاف کرے، میں نے آپ کو شرمندہ کرنے کی غرض سے کچھ نہیں کہا نواب مرزا۔ میرے بچے کو مجھ سے کوئی شکایت ہو، اس سے پہلے میں مر جائوں تو میں اپنے کو بھاگوان جانوں۔ آپ ایسی باتیں نہ سوچئے لِلہ‘‘۔
نواب مرزا کی بھی آنکھیں بھر آئیں۔ ’’اماں جان، آپ کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی پر میں نچھاور ہو جائوں۔ آپ کو دیکھ دیکھ کر تو میں جیتا ہوں۔ آپ کو ملول و محزوں کیسے دیکھ سکوں گا‘‘۔
’’آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ دو ہی چار دن میں سب ٹھیک ہو جاوے گا۔ اب آپ اپنی خالہ صاحب کے گھر واپس جائیں۔ ان سے کہہ دیجئے گا میں کل پرسوں ملنے آئوں گی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭