امت رپورٹ
فاٹا انضمام پر عمدرآمد اور تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے عمران خان کے نامزد وزیر اعلیٰ خیبر پختون محمود خان سے 6 ماہ بعد ہی یہ منصب چھن جانے کا خدشہ ہے۔ پارٹی میں گروپ بندی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ پرویز خٹک نہ صرف اپنے حمایتیوں کو صوبے کے اہم عہدے دلانے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں، بلکہ وہ عاطف خان کے مقابلے میں شاہ فرمان کو اسپیکر بنوانے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن سے تحریک انصاف کے صدر محمود خان کو وزیر اعلیٰ خیبر پختون نامزد کرنے کے باعث پی ٹی آئی کے پرانے اور نظریاتی عہدیداروں اور کارکنوں میں سخت مایوسی پھیل گئی ہے۔ پرویز خٹک گروپ کی لابی حاوی ہوتی جا رہی ہے، جس کے سبب عمران خان کے ساتھ 22 برس سے پی ٹی آئی کیلئے جدوجہد کرنے والے مقامی رہنما اور کارکنان میں بددلی پھیل رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے ساتھ ہی سیاسی کیریئر شروع کرنے والے شوکت یوسف زئی شانگلہ سے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔ سابق صوبائی صدر اور سابق اسپیکر اسد قیصر نے صوابی سے کامیابی حاصل کی۔ شاہ فرمان پشاور سے منتخب ہوئے ہیں، جو منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ان کی پی ٹی آئی کیلئے بھر پور خدمات بھی ہیں۔ شانگلہ، صوابی اور پشاور میں ان تینوں رہنمائوں نے ایسی نشستیں جیتی ہیں، جن پر کامیابی کا امکان نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وزارت علیا اس بار پشاور کے حصے میں آئے گی۔ شاہ فرمان کو فیورٹ تصور بھی کیا جاتا رہا۔ ساتھ ہی عمران خان کی بہنوں کے منہ بولے بھائی اور سابق صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان بھی فیورٹ امیدواروں میں سے تھے۔ لیکن دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کی امید ختم ہونے کے بعد پرویز خٹک نے عاطف خان کے خلاف نہ صرف محاذ کھولا، بلکہ 35 ایم پی ایز اور 8 ایم این ایز کو ساتھ ملا کر عمران خان کو یہ دلیل پیش کی کہ عاطف خان کی کارکردگی کمزور رہی ہے۔ چونکہ وہ مردان میں ساری نشستیں نہیں جیت پائے اور اے این پی نے صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پر کامیابی حاصل کی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پشاور ڈویژن کے صدر شاہ فرمان یا مالاکنڈ ڈویژن کے صدر محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے، کہ دونوں کی انتخابی کارکردگی بے مثال رہی ہے۔ محمود خان نے ضلع دیر اپر کے علاوہ مالاکنڈ ڈویژن کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ان کے جن حامیوں کو ٹکٹ دیاگیا تھا، وہ بھی کامیاب ہوئے۔ پشاور ڈویژن میں پشاور کے 13 میں سے 12 صوبائی حلقے اور نوشہرہ کے تمام صوبائی حلقوں پر انہی کے لوگ جیتے۔ جبکہ چار سدہ کی ایک صوبائی سیٹ کے علاوہ تمام قومی اور صوبائی نشستیں بھی ان کے حصے میں آئیں۔ اس لئے شاہ فرمان کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔ اس کے باوجود ذرائع کے بقول عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنما عاطف خان کو ہی وزیراعلیٰ بنانے پر بضد تھے۔ تاہم پرویز خٹک گروپ کی جانب سے شدید تحفظات کے بعد محمود خان کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر وزیر اعلیٰ 6 ماہ میں کارکردگی نہ دکھا سکے تو انہیں ہٹا دیا جائے گا۔ جبکہ خیبر پختون میں نئے وزیر اعلیٰ کو دو انتہائی اہم اور بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ قبائلی علاقوں کے خیبرپختون میں انضمام پر عملدرآمد کرانا نامزد وزیراعلیٰ کے بس کی بات نہیں، کیونکہ ماضی میں پیپلز پارٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے محمود خان کے بیوروکریسی سے اچھے تعلق نہیں۔ جبکہ فاٹا انضمام کے مخالفین یہ پروپیگنڈا بھی کر سکتے ہیں کہ انضمام کا فیصلہ غلط تھا۔ مولانا فضل الرحمان فاٹا انضمام کے مخالف ہیں اور وہ فاٹا کے مسئلے پر تحریک انصاف کی حکومت کو پریشان کر سکتے ہیں۔ اس لئے بیوروکریسی پر کنٹرول اور فاٹا کے انضمام کے مسئلے پر عملدرآمد کیلئے عمران خان کو ایک بار پھر پرویز خٹک کی ہی ضرورت پڑے گی۔ جس کا سابق وزیر اعلیٰ کو بخوبی احساس بھی ہے۔ اسی لئے پرویز خٹک کی کوشش ہے کہ وہ اپنے منظور نظر کو ان کی پوسٹوں پر دوبارہ تعینا ت کر دیں، جنہیں الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کے دوران عہدوں سے ہٹایا تھا۔ ذرائع کے مطابق 6 مہینے بعد پرویز خٹک ہی خیبرپختون کے وزیراعلیٰ ہوںگے، کیونکہ فاٹا انضمام پر عملدرآمد ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جبکہ دوسرا مسئلہ پارٹی کے اندرونی اختلافات ہیں۔ پارٹی کے اندر اس وقت تین گروپ سرگرم ہیں۔ پرویز خٹک گروپ اس وقت اکثریت میں ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر عاطف خان اور شہرام ترکئی کا گروپ ہے۔ اسی طرح تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے پرانے اور نظر انداز کئے جانے والے رہنما اور کرکنان ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نظر انداز کئے گئے رہنمائوں نے نہ صرف آپس میں رابطے شروع کر دیئے ہیں، بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کی تبدیلی اور میرٹ کے فیصلے پر شکوک کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ انہوں نے 22 سال عمران خان کا اچھے برے وقت میں ساتھ دیا، لیکن پیپلز پارٹی سے آنے والے محمود خان کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ اگر وہ پرانے رہنمائوں کو موقع دیتے تو پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کا حوصلہ بڑھتا۔ دوسری جانب ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اسپیکر کیلئے عاطف خان اور شاہ فرمان کا نام لیا جا رہا ہے۔ تاہم شاہ فرمان کے اسپیکر بننے کے امکانات زیادہ ہیں، کیونکہ انہیں پرویز خٹک کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اگر نامزد وزیر اعلیٰ محمود خان قبائلی اضلاع کے انضمام کے حوالے سے فوری فیصلے کرنے میں ناکام رہے، تو قبائلی اضلاع میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے، کیونکہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی قبائلی اضلاع کے حوالے سے قانون سازی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ ذرائع کے بقول نامزد وزیر اعلیٰ کو قبائلی اضلاع کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں ہے۔ جبکہ پرویز خٹک قبائلی اضلاع کے انضمام کے حوالے سے ریاست کے بڑے اداروں کے ساتھ مشاورت میں شامل رہے ہیں۔٭
٭٭٭٭٭