واشنگٹن/ اسلام آباد (امت نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے پاکستان کیلئے4 ارب ڈالر کا انتظام کر دیا۔ معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے اسلامی ترقیاتی بینک قرضہ دینے پر تیار ہوگیا۔ کاغذی کارروائی مکمل ہوچکی ہے اور نئی حکومت بنتے ہی رسمی پیشکش کردی جائے گی۔ بینک حکام کا کہنا ہے کہ قرض قبول کرنے کا فیصلہ پی ٹی آئی حکومت پر ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق متوقع وزیر خزانہ اسد عمر اس پیشکش کو قبول کرلیں گے۔ کینیڈا سے سفارتی تنازع پر پاکستان نے سعودی عرب کی حمایت کردی۔ امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ اقتصادی فوائد کے لئے خارجہ پالیسی تبدیل کر سکتے ہیں، جبکہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ زرمبادلہ کی کمی پوری کرنے کیلئے عالمی بینک اور چین سے بھی مدد لی جائے۔ تفصیلات کے مطابق معاشی بحران سے نمٹنے میں مدد کیلئے سعودی عرب نے اسلامی ترقیاتی بینک سے پاکستان کو4 ارب ڈالر سے زائد قرضہ دلوانے کا انتظام کرا دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق بینک نئی حکومت قائم ہوتے ہی قرضہ فراہم کرنے کی رسمی پیشکش کرے گا، جسے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر قبول کرلیں گے۔ بینک حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کاغذی کارروائی ہوچکی ہے اور منظوری کیلئے نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کا انتظار ہے۔ خیال ہے کہ اس رقم کا بڑا حصہ تیل کی مہنگی درآمدات کی ادائیگی پر خرچ ہوگا، جس سے معاشی دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ نئی حکومت کیلئے پہلا امتحان ادائیگیوں میں توازن قائم کرنا ہوگا۔اسٹیٹ بینک کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضہ دلوانے میں سعودی عرب نے مدد کی جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا چاہتا ہے۔ ادھر پاکستان نے کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر سعودی عرب کی حمایت کردی۔ جمعرات کو ترجمان دفتر خارجہ محمد فیصل نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان کو سعودی عرب اور کینیڈا کے سفارتی تنازع پر تشویش ہے اور ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے، کیونکہ پاکستان خودمختاری اور عدم مداخلت پر یقین رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے رہنما اور ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ معاشی بہتری کیلئے نئی حکومت خارجہ پالیسی تبدیل کر سکتی ہے۔ انہوں نے اسلام آباد سے ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں کہا میرا خیال ہے کہ سیاسی حکومتوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے یہ کہا کہ امریکہ، افغانستان یا بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کے باعث ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے فیصلے پر کام کریں گے، ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور اگر عمران خان کا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا تو وہ گھر جانا پسند کریں گے۔اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کرے گی۔ امریکہ کے ساتھ نئے خطوط پر تعلقات کو پروان چڑھائے گی اور چین کے ساتھ مزید بہتر تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تمام تر تنازعات کے حل سے پاکستانی معیشت میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ واشنگٹن نے پی ٹی آئی کے تحفظات دور کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے، جس میں افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنا شامل ہے۔ اسد عمر نے واضح کیا کہ دنیا اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کا انحصار افغانستان کے معاملات پر ہے۔انہوں نے کہا پاکستان کو گزشتہ 3ماہ سے ماہانہ 2ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔ 5 سال قبل جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسراقتدار آئی تھی تب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب ڈالر سالانہ تھا، لیکن 12 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور خسارہ ماہانہ کی بنیادوں پر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ اشاریے مثبت نہیں، حکومت کے لیے ضروری ہوگا کہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر اور مسلم لیگ (ن) کے طارق فاطمی نے بھی امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے تھنک ٹینک سے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے، جبکہ عالمی بینک کے سابق اعلیٰ عہدے دار اور سابق نگراں وزیر خزانہ شاہد جاوید برکی نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں معیشت تباہی کے دہانے پر نہیں اور موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 1996میں بینظیر بھٹو کی حکومت جانے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر42 ملین ڈالر رہ گئے تھے، جو صرف ایک دن کی درآمدات کے لئے کافی تھے، جبکہ اب 10 ارب ڈالر موجود ہیں، جو 2ماہ کیلئے کافی ہیں۔اس دور میں پاکستان دیوالیہ ہونے والا تھا، لیکن میں نے چین سے500ملین ڈالر ہنگامی قرضہ حاصل کیا جو مارکیٹ سے سستا تھا۔انہوں نے کہا سی پیک چین کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور بیجنگ پاکستان کو اقتصادی طور پر ڈوبنے نہیں دے گا۔اب جبکہ چین تجارتی لحاظ سے امریکہ کے دباؤ میں ہے وہ پاکستان کی مدد ضرور کرے گا۔ شاہد برکی نے کہا کہ سی پیک سے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو میں 2 فیصد اضافے کے ساتھ 7اعشاریہ 5فیصد ہوجائے گی، جس سے معیشت کو لاحق خطرات ختم ہو جائیں گے۔انہوں نے مثال دی کہ ایک موقع پر معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے میکسیکو نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے عالمی بینک سے ایک ارب ڈالر قرضہ لیا تھا۔ اس وقت کے امریکی وزیر خزانہ لارنس سمر نے قرضے کے حصول میں مدد کی تھی، جس کے بعد میکسیکو نے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا اور بحران سے نکل گیا۔ شاہد برکی کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو آخری بار نسبتاً نرم شرائط پر 6اعشاریہ 6ارب ڈالر قرضہ 3سال کیلئے دیا تھا۔اس وقت اوباما امریکی صدر تھے اور انہوں نے اس کی حمایت کی تھی لیکن اب ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں جن کا پاکستان کے ساتھ رویہ اوباما جیسا نہیں اور حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سی پیک کے باعث آئی ایم ایف قرضہ مشروط کرنے کی بات کر چکے ہیں۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے میں مشکلات ہونگی اور اگر مل بھی گیا تو سخت شرائط پر ملے گا۔ انہوں نے تجویز دی کہ معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک ماہ کے اندر پہلے قرضے کا قلیل مدتی پروگرام بنانا ہوگا اور معاشی دباؤ کم کرنے پر توجہ دینا ہوگی، اس کے لئے چین سے بھی مدد حاصل کی جائے۔ اس کے بعد اقتصادی شرح بڑھانے کیلئے وسط مدتی پروگرام پر آنا ہوگا اور سی پیک کے ذریعے نیا اقتصادی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوگا۔ شاہد برکی نے کہا کہ پاکستان خطے میں انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے اسے دوسرے ملکوں کی تجارت کیلئے اپنی سرحدیں کھولنا ہونگی، مثال کے طور پر بھارت کو اس کا برآمدی سامان افغانستان اور دیگر ممالک بھیجنے کیلئے راستہ دیا جا سکتا ہے اور اسکے لئے پرکشش ٹرانزٹ فیس لی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں مواصلات کا انفرااسٹرکچر پہلے سے موجود ہے جو زرمبادلہ کمانے کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس سے ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مزید مواقع پیدا ہونگے۔ ایک بار سی پیک کا انفرااسٹرکچر فعال ہونے کے بعد پاکستان وسط ایشیائی ممالک اور وہاں سے دیگر ممالک کے لئے راستہ بن سکتا ہے۔ شاہد برکی کے مطابق سی پیک سے ایک اور موقع یہ بھی ہے کہ چینیوں کو پاکستان کی زراعت کی ترقی کے لئے دعوت دی جائے اور خاص طور پر شمالی علاقہ جات کو پھلوں، سبزیوں اور ڈیری مصنوعات کا مرکز بنایا جائے جبکہ چین کے روبوٹ اور کاروں جیسے پروگراموں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا نئی حکومت کو اقتصادی ماہرین کی ٹیمیں بنانی چاہئیں۔ اس سے قبل سابقہ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ندیم الحق بھی آئی ایم ایف سے رجوع کی مخالفت کر چکے ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک کی جانب سے قرضہ ملنے پر بھی تحریک انصاف کی نئی حکومت کو غیر مقبول فیصلے کرنے ہونگے، جن میں اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے۔ سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کے مطابق بجٹ خسارہ 7 سے4 فیصد پر لانا نئی حکومت کیلئے آسان نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭٭