عباس ثاقب
بالآخر میں سوامی کے کھوکھے کے عین عقب میں پہنچ گیا۔ الوک کی پھٹ پھٹی عین میرے سامنے موجود تھی۔ میں نے ایک بار پھر احتیاط سے اطراف کا جائزہ لیا اور پھر کوئی خطرہ نہ پاکر تیزی سے جھکا اور چوڑے سر والی تھمب پن پھٹ پھٹی کے اگلے ٹائر میں گھسا کر اپنی موٹر سائیکل کی طرف واپس چل پڑا۔ اپنے منصوبے کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل پر میں خاصا مسرور تھا۔ میں نے اپنی موٹر سائیکل کا رخ پہلے ہی اختر خان کی گاڑی کی واپسی کے راستے کی طرف کر رکھا تھا۔ البتہ میری نظریں سفارتخانے کی طرف جمی ہوئی تھیں۔
کچھ ہی دیر بعد میں نے ڈرائیور کو اختر خان کی گاڑی سفارتخانے کے مرکزی دروازے کے سامنے لاکر کھڑی کرتے دیکھا۔ عین اس وقت میں نے الوک کو بھی اپنے اسکوٹر پر آکر بیٹھتے دیکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اختر خان سفارت خانے سے برآمد ہوئے اور گاڑی کی پچھلی نشست پر آکر بیٹھ گئے اور ڈرائیور نے گاڑی چلا دی۔ میں نے گاڑی کو اپنے پاس سے گزرکر آگے جانے دیا۔ حتیٰ کہ الوک بھی اپنی اسکوٹر پر میرے پاس سے گزر گیا۔ پھر لگ بھگ پچاس گز کا فاصلہ رکھ کر میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔
الوک کی اسکوٹر بمشکل سو گز آگے بڑھی ہوگی کہ میں نے اس کی رفتار میں کمی محسوس کی۔ اور پھر الوک نے اسے سڑک کے کنارے روک دیا۔ میں اسکوٹر کے قریب سے گزرا تو الوک کو فکر مندی سے اس کے اگلے ٹائر کا جائزہ لیتے پایا۔ اگر میرا چہرہ گلوبند میں پوشیدہ نہ ہوتا اور وہ عین وقت پر میری طرف دیکھ لیتا تو میرے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ شاید اسے پوری کہانی سے آگاہ کر دیتی۔
اختر خان کی گاڑی درمیانی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی اور مجھے اس سے مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے تعاقب کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی تھی۔ مجھے اپنے منصوبے کے مطابق گاڑی کے کہیں ٹھہرنے کا انتظار کرنا تھا۔ راستے میں کئی جگہ خاصے رش والے مقامات آنے والے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی کوئی نہ کوئی مناسب موقع مل جائے گا۔ ورنہ مجھے اپنی سوچی ہوئی متبادل ترکیب آزمانی پڑتی۔
بالآخر میری امید بر آئی۔ گاڑی ایک چوراہے سے پہلے ٹریفک سگنل پر ٹھہر گئی۔ میں موٹر سائیکل کو آگے بڑھاکر اختر خان کی گاڑی کے اس دروازے کی طرف لے گیا، جدھر وہ بیٹھے تھے۔ میں نے گاڑی روک کر دھیرے سے بند شیشے پر دستک دی۔ انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ڈرائیور بھی اس دوران میری طرف متوجہ ہو چکا تھا، لیکن میں اختر خان کی طرف متوجہ رہا۔ وہ قدرے حیرانی اور تشویش سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے اپنے ہاتھ میں موجود ایک کاغذ کا رخ ان کی طرف کیا اور بلند لیکن مہذب لہجے میں انہیں مخاطب کیا اور انگلش میںکاغذ پر درج پتا بتانے کی درخواست کی۔ مجھے یقین تھا کہ میری درخواست کا مفہوم ان تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس دوران میں ڈرائیور نے اپنی طرف کا شیشہ اتار کر اکھڑ لہجے میں مجھے ڈپٹا ’’اوئے، کون ہے تُو؟ کیوں صاحب کو تنگ کر رہا ہے؟‘‘۔
میں نے ناگواری سے بھرپور ایک نظر ڈرائیور پر ڈالی اور پھر اسے نظر انداز کر کے ایک بار پھر اختر خان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس دوران وہ بھی اپنی طرف کا شیشہ نیچے کر چکے تھے۔ میں نے ایک بار پھر انگلش میں ان سے رہنمائی کی التجا کرتے ہوئے بتایا کہ میں مقامی زبان نہیں سمجھتا اور انگلش پڑھنے، سمجھنے اور بولنے والے کسی شخص کی تلاش میں خاصی دیر سے سرگرداں ہوں۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ڈرائیور کو خاموش رہنے کو کہا، جو غالباً مجھے مزید کھری کھری سنانے کی تیاری کر رہا تھا۔ انہوں نے پرچہ میرے ہاتھ سے لے لیا اور اس پر بڑے بڑے انگریزی حروف میں لکھا پتا غور سے دیکھا۔ اچانک مجھے ان کی آنکھوں میں چمک بڑھتی محسوس ہوئی۔ انہوں نے کن انکھیوں سے ڈرائیور کو دیکھا اور پھر انگلش میں کہنے لگے ’’کرم چند چنی لال جیولرز… اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو ان کی دکان جمعہ مسجدکے دائیں طرف والے گیٹ کی طرف ہے‘‘۔
میں نے جمعہ پر زور دیتے ہوئے پتے کی تصدیق چاہی تو انہوں نے تصحیح کی کہ وہ جمعہ نہیں، بلکہ جامع مسجد کہنا چاہتے تھے۔ اس دوران میں نے انہیں ڈرائیور سے نظر بچاکر واضح طور پر دائیں آنکھ دباتے دیکھا۔ ان کے ہونٹوں پر شاید دبی دبی مسکراہٹ بھی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کھڑکی کا شیشہ چڑھایا اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھادی۔ مجھے اب ان کا تعاقب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے موٹر سائیکل ایک سڑک پر موڑی اور پھر ایک سیر گاہ کی پارکنگ میں اسے چھوڑ کر ایک سائیکل رکشے کے ذریعے ایک بار پھر دلّی میں اپنے فراخ دل میزبان کے دربار کارخ کیا اور ان سے عاجزی کے ساتھ اظہار تشکرکرنے کے بعد اسی گوشے کا رخ کیا، جہاں میں نے گزشتہ شب گزاری تھی۔ تنہائی ملنے پر میں نے جوہری کے پتے والا وہی پرچہ نکالا۔ اس پر میں نے واقعی انگلش کے موٹے حروف میں KARAM CHAND CHINNI LAL JEWELLERS لکھا تھا، اور اگر کوئی عام ہندوستانی پڑھتا تو وہ اس نام میں شاید کوئی خاص بات نہ ڈھونڈ پاتا۔ لیکن میں نے کرم کے پہلے چار حروف KARA پر دوہرا قلم پھیرا تھا اور آخری حرف M کو دانستہ باریک چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ چنی لال کے پہلے تین حروف CHI کو نسبتاً موٹا لکھ کر باقی تمام حروف باریک رکھے تھے۔ میرے اندازے کے عین مطابق اختر خان جیسے ذہین، محب وطن اور خصوصی تربیت یافتہ پاکستانی کو اس نام میں چھپا اپنے وطن کے دارالحکومت کراچی کا نام پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگی تھی اور اس نے فوراً پورا معاملہ سمجھ کر نہایت مہارت اور رازداری سے مجھے ملاقات کی مناسب جگہ اور وقت بھی بتادیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭