آئی ایم ایف کا فرقہ ایک کروڑ افراد کو بے روزگار کردے گا

0

عارف انجم
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا شمار پاکستان کے ان گنے چنے ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے، جو عالمی اقتصادیات کو محض مغرب کے عدسے سے نہیں دیکھتے، بلکہ اس اہم موضوع پر اپنی سوچی سمجھی رائے رکھتے ہیں۔ وہ امریکہ کی وانڈربلٹ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے اور انگلستان کی ایسٹ انگلیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد طویل عرصے سے درس و تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ کے کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کی ڈین اور شعبہ اکنامکس کی سربراہ ہیں۔ وہ کراچی اسٹاک ایکس چینج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل رہیں۔ اس کے علاوہ کئی جامعات اور تنظیموں کی ریسرچ کونسلز اور ایڈوائزی بورڈز کا حصہ رہ چکی ہیں۔ اقتصادی امور پر تحقیق میں ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کردار انتہائی اہم ہے اور اس سلسلے میں وہ کئی ممالک کے دورے کر چکی ہیں۔ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں غیر مساوی اقتصادی تعلقات ان کا خاص موضوع ہے۔ ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال پر ’’امت‘‘ کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سیاسی اور معاشی مضمرات بتائے۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے نہ صرف ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ بیروزگار ہوں گے، بلکہ تحریک انصاف کو خطرناک سیاسی بحران کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ ملکی وسائل سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائے جا سکتے ہیں۔ اگر صرف کھانے پینے کی اشیا کی غیر ضروری درآمد روک دی جائے تو پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرو میں سالانہ 3 ارب ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
س: نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کا نیا قرضہ لینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ستمبر کے آخر تک اس قسم کا فیصلہ ناگزیر ہے۔ آپ نے اپنے ایک ریسرچ پیپر میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے متبادل ذرائع سے زر مبادلہ حاصل کرنے اور بچانے کی تجاویز دی تھیں۔ آپ اس تمام تر صورتحال کو کیسے دیکھتی ہیں؟
ج: اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو نہ صرف عمران خان ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ پورا نہیں کر سکیں گے، بلکہ پہلے سے موجود ایک کروڑ نوکریاں کم ہو جائیں گی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ماضی میں کیا ہوا تھا۔ جب بھی پاکستان میں جمہوریت آتی ہے تو آئی ایم ایف سرگرم ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ جمہوریت کو ایک بار پھر ناکام کر دے گا۔ 90ء کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی جمہوری حکومتیں آئیں تو بحران پیدا ہوئے۔ لیکن اس وقت اصل بحران قرضوں کا ہوتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہی شرح نمو، تعمیر و ترقی اور وسائل کی تقسیم کے بحران پیدا ہوتے تھے اور اسی کے بعد سماجی بحران اور پھر آخر میں سیاسی بحران پیدا ہو جاتا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 90ء کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں لڑائی ہوتی تھی تو وہ پہلے ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگاتے تھے۔ بعد میں انہوں نے کرپشن کا الزام لگانے کے بجائے کہنا شروع کیا کہ یہ حکومت ڈیفالٹ کرنے والی ہے۔ جیسے ہی یہ الزام لگایا جاتا فوراً ہی حکومت کی چھٹی ہو جاتی تھی۔ دوسری حکومت آجاتی تھی، جو آتے ہی اعلان کرتی کہ ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے، بلکہ قرضے ضرور ادا کریں گے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت اگر آئی ایم ایف کے پاس گئی تو وہ نہ تو ایک کروڑ نوکریاں دے پائے گی، نہ ہی 50 لاکھ گھر بنا پائے گی۔ وہ لوگوں کو بہت مایوس کرے گی۔ بلکہ ایک کروڑ نوکریاں کم ہوں گی۔ کیونکہ 90ء کی دہائی میں جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو 5 ہزار صنعتی یونٹس بند ہوئے تھے اور لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے تھے۔ سرکاری اعداد و شمار میں ان بے روز گار ہونے والے افراد کی تعداد 20 لاکھ بتائی گئی ہے، جو اصل تعداد سے کم ہے۔ ہمارا گروتھ ریٹ بھی کم ہوا۔ 80ء کی دہائی میں بھی ہمارا مجموعی گروتھ ریٹ 6 اعشاریہ 4 فیصد تھا۔ لیکن 90ء کی دہائی میں 4 اعشاریہ ایک فیصد رہ گیا۔ ہماری ڈیولپمنٹ بالکل ختم ہوگئی۔ اسی لیے نوّے کی دہائی کو ’’عشرہ زیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی عرصے میں غربت بہت بڑھی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 50 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ اندرون سندھ میں 85 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے تھے۔ جرائم بھی بڑھے۔ میں سمجھتی ہوں اس وقت عمران خان صاحب کے پاس بہت بڑا سنہری موقع ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کے پاس جا کر وہ اسے کھو دیں گے۔ آئی ایم ایف کی حکمت عملی ہمیں نظر میں رکھنی ہوگی۔ آئی ایم ایف والے کہتے ہیں کہ آپ کو کل ہمارے پیسے واپس کرنا ہوں گے، لہٰذا آپ اپنی کرنسی کی قدر کم کریں تاکہ آپ کی برآمدات میں اضافہ ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں ہے کہ کرنسی کی قدر گھٹانے سے برآمدات میں اضافہ ہو۔ اگرآپ کی مصنوعات Demand Elastic ہیں تو قیمت کم کرنے سے طلب بڑھتی ہے۔ لیکن اگر Demand Elastic نہیں ہیں تو قیمت کم کرنے سے بھی طلب نہیں بڑھتی اور آپ کی غیر ملکی کرنسی میں آمدن مزید کم ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف آپ کی درآمدات مہنگی ہو جائیں گی۔ درآمدات مہنگی ہونے سے سی پیک کی فیزیبلٹی بھی خراب ہوگی۔ سی پیک کا تخمینہ ڈالر پر مبنی ہے۔ روپوں میں یہ منصوبہ مہنگا ہو جائے گا۔ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا، کیونکہ صنعتی خام مال سمیت آپ کی کیپٹل گڈز مہنگی ہو جائیں گی۔ صنعتیں بند ہونا شروع ہو جائیں گی، کیونکہ اس وقت جب آپ کی کاروباری لاگت بڑھ رہی ہے تو آپ کے لیے عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر جب مہنگائی آتی ہے توآئی ایم ایف کہتا ہے کہ اب مانیٹری پالیسی سخت کردیں۔ قرض دینے پر شرح منافع بڑھا دیں۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے۔ سرمایہ کاری کم ہونے سے پیداوار کی شرح بھی کم ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ پورا ایک دائرہ ہے۔ جب ملازمتیں کم ہوں گی تو دولت و آمدن کی تقسیم بگڑ جائے گی۔ اس سے غربت بڑھے گی۔ غربت بڑھنے سے اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف جو پہلے ہی بہت کم اکثریت سے حکومت بنا رہی ہے، اسے لوگ چھوڑ کر جانے لگیں گے اور سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔ سی پیک کے منصوبے بھی مہنگے ہو جائیں گے۔ مغرب ان منصوبوں میں کٹوتی کرانا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سی پیک کے کئی منصوبے ترک کرنا پڑیں۔
س: اس وقت جو تخمینے سامنے آ رہے ہیں، ان کے مطابق حکومت کو فوری طور پر 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اسد عمر صاحب نے 12 ارب ڈالر کی بات کی ہے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس نہ جائے تو متبادل حل کیا ہے؟
ج: ہمیں فی الفور پُرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ ان اشیا میں گاڑیاں، مہنگے کپڑے، جوتے شامل ہیں۔ آپ مردوں کے جوتے دیکھیں۔ 20 ہزار سے 25 ہزار کے ہیں۔ جب ہمارا ملک بحران میں ہے تو کیا زیب دیتا ہے کہ ہم ایسے جوتے خریدیں۔ پھل لینے جائیں۔ 600 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ وہ پھل ہیں جنہیں درآمد کرنے کے لیے ہم ڈالرز دے رہے ہیں۔ مالی سال 17، 2016ء میں ہم نے فوڈ گروپ میں 4 اعشاریہ 5 ارب ڈالر ز کی درآمدات کیں۔ کھانے پینے کی ان اشیا میں دودھ، ڈرائی فروٹ، خوردنی تیل، شوگر وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں سے ڈرائی فروٹ جیسی اشیا درآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈرائی فروٹ تو پاکستان میں زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ جبکہ خوردنی تیل کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ملائیشیا نے ہمیں پیشکش کی تھی کہ وہ خوردنی تیل ہمیں بارٹر پر فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔ مثال کے طور پر ہم پام آئل ڈیڑھ ارب ڈالر کا منگواتے ہیں تو اس کے بدلے بجائے ڈالرز میں ادائیگی کرنے کے ہم اپنی کوئی مصنوعات انہیں دے سکتے ہیں جس سے زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ 90ء کی دہائی میں جب پاکستان کے خلاف پریسلر ترمیم کے تحت پابندیاں لگی ہوئی تھیں تو ایران نے ہمیں پیشکش کی تھی کہ وہ ہمیں تیل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ بدلے میں ایران کو ہیوی میکینکل کمپلیکس میں شوگر اور سیمنٹ کے پلانٹ بناکر دیئے جائیں۔ اسی طرح ہم ہر برس 6 اعشاریہ 7 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات منگواتے ہیں۔ ان کی ادائیگی بھی بارٹر پر کی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے جب ہم قرضہ لیتے ہیں تو ان کی طرف سے ایسی پالیسیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جن کے نتیجے میں ہماری معیشت سکڑتی ہے۔ جبکہ بارٹر کے ذریعے معیشت کو پھیلایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہماری پیداوار بڑھتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے بعد روس بھی ہمارے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کیلئے تیار ہے۔ اس کے علاوہ ہر برس ہم 3 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی کی کنزیومر ڈیوریبل اشیا یعنی گاڑیاں، ریفریجریٹر، برقی آلات وغیرہ منگواتے ہیں۔ ان کی کوئی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ آپ ان کی غیر ضروری درآمد پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ معیشت کی بہتری کیلئے سرمائے کا کنٹرول نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کا کرنسی کنٹرول نظام دنیا کا سب سے آزاد نظام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں سے ڈالر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق پچھلے برس پاکستان سے 10 ارب ڈالر قانونی ذرائع سے باہر گئے۔ جبکہ اس سے کہیں زیادہ رقم غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر گئی، جیسا کہ ایک معاملہ ایان علی کا تھا۔ قانونی لحاظ سے رقم باہر جانے کا معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ ویسے بینک میں جائیں تو آپ کا اکائونٹ بھی آسانی سے نہیں کھلے گا۔ لیکن جعلی لوگوں کے اکائونٹ بہت آرام سے کھل رہے ہیں۔ ایک بینک میں (میں نام نہیں لوں گی) 180 ایسے جعلی اکائونٹ کھلے جن کے ذریعے رقم باہر جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کی ہدایت پر گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی اپنی رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ گزشتہ مالی سال میں 15 ارب ڈالر ملک سے باہر گئے۔ اور یہ رقم قانونی طریقے سے گئی۔ غیر قانونی طریقے سے جانے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ میں نے اپنے پپپر میں معیشت کے حوالے سے کچھ طویل المدتی حل بھی تجویز کیے ہیں۔ مثال کے طور پر شروع میں مرکزی بینک سرمایہ کا کچھ حصہ سونے کی صورت میں رکھتے تھے۔ اب بیشتر بینک ریزروز ڈالر کی صورت میں رکھتے ہیں۔ لیکن بھارت اور اسرائیل اب بھی اپنے ریزروز کا ایک بڑا حصہ سونے کی صورت میں رکھتے ہیں۔ سن 2000ء میں ایک اسٹڈی میں، میں نے تجویز دی کہ مرکزی بینک اپنا گولڈ کا ریزرو بڑھائے۔ اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اب پھر میں نے یہ تجویز دی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہمیں آزادی ہوتی ہے کہ ہم سونا عالمی مارکیٹ میں بیچ کر ضرورت پوری کر سکیں۔ طویل المدتی تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان سے کرپشن کا جو پیسہ بیرون ملک گیا ہے اور جا رہا ہے اور جس سے جائیدادیں خریدی جا رہی ہیں، اسے واپس لایا جائے۔ اس پیسے سے ہم ڈیٹ سروسنگ بھی کر سکیں گے اور ڈیم بھی بنا سکیں گے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے قدرتی وسائل بہت اونے پونے دوست اور دشمن ممالک کو دیئے گئے ہیں۔ نیٹو کو ہم نے اپنی سڑکیں اور ہوائی راستے مفت میں دیئے ہیں۔ امریکہ ہمارا کولیشن سپورٹ فنڈ بند کر چکا ہے، جبکہ ہم نے ابھی تک ان کو اپنی شاہرائیں مفت میں دی ہوئی ہیں۔ اس پہلو پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہئے۔ اگر انہیں یہ سہولتیں دینی ہی ہیں تو مارکیٹ ریٹ پر دی جائیں۔ اس کا مارکیٹ ریٹ ملے تو ہمیں نہ تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سے قرضہ لینے کی۔ پاکستان کی مثال ایسے ملک کی ہے جیسے ایک دولت مند آدمی سب کو اپنی دولت مفت میں بانٹ رہا ہے اور اس کے بعد جا کر بھیک مانگتا ہے۔ اگر ایسا کوئی آدمی ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس کا ذہنی توازن خراب ہے، جو پہلے سب کچھ بانٹ دیتا ہے اور پھر بھیک مانگتا ہے۔
س: آپ کی یہ تجاویز کس حد تک قابل عمل ہیں؟ مثال کے طور پر آپ نے کنزیومر ڈیوریبلز کی بات کی۔ کچھ عرصہ قبل جب پرانی گاڑیوں کی درآمد محدود کی گئی تو پاکستان میں لوگوں کو گاڑیاں خریدنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نئی گاڑیوں پر اون لیا جانے لگا (اون وہ رقم ہے جو بالعموم ڈیلرز گاڑی کی فوری دستیابی پر اضافی وصول کرتے ہیں)۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ حکومت نے درآمدات محدود کی تھیں۔ یہی صورتحال دیگر اشیا کے معاملے میں بھی ہوسکتی ہے۔
ج: میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ضرورت کی چیز پر پابندی لگا دی جائے۔ میں کہہ رہی ہوں کہ تعیشات نہ منگوائی جائیں۔ جیسا کہ آپ دیکھیں گاڑیاں کتنی ہیں ملک میں۔ اگر آپ ایک سال یا دو سال نئے ماڈل کی گاڑیاں نہیں لائیں گے تو ایسی کون سی مصیبت ہو جائے گی۔ اگر آپ انہی دولت مند لوگوں کا سوچ رہے ہیں کہ ان کی ایسی ضروریات ہیں کہ ان کو ہر وقت لیٹسٹ کار دینا ضروری ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ ایسے دولت مند لوگوں کی تعیشات ایسے پوری کی جائیں کہ ملک کو اتنے مسائل کا سامنا ہو۔ ضرورت کی کنزیومر ڈیوریبل آپ ضرور لائیں۔ لیکن اگر آپ نئے ماڈل کی گاڑی یا نئے ماڈل کا فریج باہر سے نہیں لائیں گے تو آپ کی اپنی انڈسٹری پنپنا شروع ہو جائے گی۔ یہاں پر بھی تو فریج بنتے ہیں۔ وہ صنعت بہتر ہو جائے گی۔
س: ہمارے ملک کی معیشت فری مارکیٹ اکانومی کے اصول پر مبنی ہے۔ کم از کم ہم تاثر یہی دیتے ہیں۔ کسی بھی فری مارکیٹ میں درآمدات پر پابندیوں جیسے فیصلوں کو بہت بڑی حکومتی مداخلت تصور کیا جا تا ہے۔ کیا ایسے سخت فیصلوں سے طوفان کھڑا نہیں ہو جائے گا؟
ج: امریکہ تو علمبردار ہی فری مارکیٹ کا ہے۔ فری مارکیٹ میں ٹیرف نہیں لگائے جاتے، لیکن اس نے ٹیرف لگائے ہیں۔ امریکہ میں انوسٹمنٹ کو روکا جا رہا ہے، جبکہ فری مارکیٹ میں آپ انوسٹمنٹ کو نہیں روک سکتے۔ 2008ء اور 2009ء میں مالیاتی بحران کے دوران آپ کو یاد ہے کہ کس طرح فری مارکیٹ کے علمبردار ملکوں میں بیل آئوٹ دیئے گئے۔ بینکوں اور کمپنیوں کو نیشنلائز کیا گیا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ غریب ملکوں میں فری مارکیٹ ہو اور امیر ممالک جب چاہیں فری مارکیٹ پر آجائیں اور جب چاہیں اس اصول کو الٹ کر دیں۔ ہم لوگ ذہنی طور پر ایسے بن گئے ہیں کہ ہمیں کسی پالیسی سے کتنا بھی نقصان ہو، ہم کہتے ہیں کہ ہم تو اس سے کمٹڈ ہیں۔ لیکن وہ (امریکی حکام) صرف اپنے ملک کا سوچتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں اپنے ملک کا سوچتے۔ آپ دیکھیں کہ انہوں نے کتنے ٹریلین ڈالر اپنی کمپنیوں میں ڈالے تھے۔ ہمیں وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کی کمپنیاں بیٹھ رہی ہیں تو ان کو بیٹھ جانے دیجئے۔ ان کی جگہ اس سے بہتر کمپنیاں آئیں گی اور کارکردگی بڑھے گی۔ لیکن اپنے ملک میں وہ اپنی کمپنیوں کو ڈوبنے نہیں دیتے۔ انہیں وہ بیل آئوٹ کرتے ہیں۔ ہم کیوں اتنے کمٹڈ ہیں فری مارکیٹ سے؟ اب وقت آگیا کہ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھے۔
س: بارٹر سسٹم کے حوالے سے آپ کی تجویز پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ کس حد تک قابل عمل ہے؟ کیونکہ بارٹر میں اگر آپ تیار ہیں تو دوسرا ملک بھی تو چاہیے کہ جو آپ کے ساتھ بارٹر کرنا چاہتا ہو۔
ج: کئی ممالک تیار ہیں اور ایک دوسرے سے بارٹر کر رہے ہیں۔ ایران بہت بڑے پیمانے پر بارٹر میں تجارت کرتا ہے۔ ایران نے ہمیں 90ء کی دہائی میں پیشکش کی تھی۔ ایران جانے والے بیوروکریٹس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتا تھا۔ اس وقت بھی نواز شریف کی حکومت تھی لیکن نواز شریف کی سیاسی حکومت نے بیوروکریٹ سے کہا کہ ایران آپ کو اس قسم کے بہت اچھے اچھے مشورے دے گا، لیکن آپ اس کو ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال دیں، کیونکہ واشنگٹن اجازت نہیں دے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ اپنے ملک کی کس حد تک فکر کرتے ہیں۔ بھارت کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خالصتاً اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔ دو برس قبل میں روس گئی تھی تو دیکھا کہ بھارتی حکام کی بہت زیادہ آئو بھگت نہیں ہو رہی۔ لیکن ابھی جب میں گئی تو بھارتیوں کی بہت زیادہ آئو بھگت ہوتے دیکھی۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت روس پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یہ بھی افواہ ہے کہ بھارت نے سائبیرین گیس منصوبے میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس بات کی تصدیق کی ضرورت ہے۔ لیکن بھارتی امریکی پابندیوں کی پرواہ نہیں کر رہے۔ ایران کے معاملے میں بھارت نے امریکہ سے باقاعدہ اجازت لے لی ہے۔
س: اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو اس میں کچھ وقت ضرور درکار ہوگا، لیکن متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا یا کسی اور ذریعے سے قرض حاصل کرنے کا فیصلہ 6 ہفتے میں کرنا ہوگا۔ فوری طور پر زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کیلئے پاکستان کیا کر سکتا ہے؟
ج: شارٹ ٹرم اقدامات تو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ غیر ضروری اشیا کی درآمد بند کردیں تو زر مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی وقت نہیں لگے گا۔ کیپٹل کنٹرو ل لگا دیں تو ان کا بھی فوری اثر ہوگا۔ آ ئوٹ فلو بند ہو جائے گا تو باہر جانے والے ڈالرز بچ جائیں گے۔ اگر آپ کو چھ ہفتے میں یہ فیصلہ کرنا ہے تو کیوں تعیشات امپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ بارٹر سسٹم طویل المدتی تجاویز میں شامل ہے۔ اس پر بات چیت شروع کی جاسکتی ہے۔ تیل کی ہمیں ضرورت ہے۔ ایران پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر آپ بارٹر کی بات کریں تو پابندیوں کے باوجود یہ تجارت گرفت میں نہیں آسکتی۔ اس کے علاوہ اگر آپ فوراً ہی امریکہ و نیٹو کی طرف سے سڑکوں کے استعمال پر چارج کرنا شروع کر دیں تو فوری طور پر پیسہ ملنا شروع ہو جائے گا۔ صرف کھانے پینے کی اشیا میں سے چائے اور خوردنی تیل کی درآمد جاری بھی رکھی جائے تو دیگر اشیا کی مد میں 3 ارب ڈالر سالانہ بچائے جا سکتے ہیں۔ قانونی طور پر جو 15 ارب ڈالر سالانہ باہر جا رہے ہیں انہیں روکنے سے فوری طور پر زر مبادلہ دستیاب ہو جائے گا۔ غیر قانونی طور پر اس سے زیادہ بڑی رقم جا رہی ہے۔ وہ بھی روکی جا سکتی ہے۔ اس وقت آپ کو آئوٹ آف دا باکس حل چاہیے۔ کوئی بھی ملک باکس کے اندر حل نہیں ڈھونڈ رہا۔
س: آئوٹ آف دا باکس حل کیلئے بہت زیادہ ہمت درکار ہوتی ہے۔
ج: جی ہاں، سیاسی عزم۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پاس سیاسی عزم ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ طاقت ور لابی انہیں بھی اپنے قابو میں نہ کرلے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More