واشنگٹن (امت نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک میں پاکستانی فوجی افسران کی تربیت بھی بند کرا دی ہے ،جو ماضی میں تعلقات کی سطح انتہائی گرنے کے باوجود کبھی متاثر نہیں ہوئی تھی ۔برطانوی خبر ایجنسی نے امریکی حکام کےحوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایک دہائی کے دوران پاک امریکہ فوجی تعاون کی علامت بن کر ابھرنے والے تربیتی و تعلیمی پروگرام میں شریک پاکستانی فوجی افسران کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان نےافسران کی تربیت بند کئے جانےکے بعد روس اور چین کا رخ کرنے کا انتباہ دیدیا ہے۔پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں دوسری بار فوجی افسران کی تربیت بند کی گئی ہے ۔پہلی بار 1990 میں صدر بش سینئرنے پریسلرترمیم کے تناظر میں پاکستان کی فوجی امداد اور آئی میٹ نامی پروگرام بند کئے تھے ۔تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے رواں برس کے آغاز پر پاکستان کی فوجی امداد کی معطلی کے اعلان کے بعد اس کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حکام نے ایک دہائی کے دوران پاک امریکہ فوجی تعاون کی علامت بن کر ابھرنے والے تربیتی و تعلیمی پروگرام میں شریک پاکستانی افسروں کو خاموشی کے ساتھ نکالنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی فوجی افسران پر امریکی وار کالج، یو ایس نیول وار کالج اور نیول اسٹاف کالج ،سائبر اسٹڈیز کے کورسز کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات پر امریکی عسکری حکام نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس نوعیت کے فیصلوں سےدونوں ممالک میں اعتماد کی بحالی کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔ جن پروگراموں سے پاکستانی افسران کو نکالا جا رہا ہے وہ باہمی فوجی تعاون کا اہم ترین جز ہیں۔رپورٹ کے مطابق امریکی فوج ماضی میں ہمیشہ فوجی تربیتی پروگراموں کو سیاسی اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے کوشاں رہی ہے ،جو سمجھتی ہے کہ تربیت لینے والے غیر ملکی افسران مستقبل بعید میں بھی سود مند رہتے ہیں۔پاکستانی آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی امریکہ کے وار کالج کے تربیت یافتہ ہیں۔ اس کالج میں ہر بار2پاکستانی فوج افسر تربیت کا حصہ بنتے رہے ہیں۔وار کالج کی ایک ترجمان کے مطابق کئی دہائیوں کے دوران یہاں 37افسران تربیت لے چکے ہیں اور نئے تعلیمی سال کے دوران پہلی بار کوئی بھی پاکستانی فوجی افسر اس کا حصہ نہیں بنے گا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون اور پاک فوج نے اس انکشاف پر کسی قسم کا براہ راست رد عمل نہیں دیا ہے، تاہم دونوں ممالک کے حکام اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام میں شرکت کیلئے رواں برس میں پاکستان کیلئے 66افسران کو شرکت کرنی تھی۔ یہ اب یہ نشستیں خالی رکھی جائیں گی یا پاکستانی افسران کی جگہ دیگرممالک کے افسران کو داخلہ دیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ فیصلوں کے نتیجے میں انٹر نیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام ہی نہیں ،بلکہ 2دیگر پروگرام بھی متاثر ہوں گے۔ پنٹاگون کی ایک ترجمان ڈانا وائٹ نے فیصلے پر کسی قسم کا رد عمل دیے بغیر کہاکہ امریکی وزیر دفاع جم میٹس اس بات کے قائل ہیں کہ پاک امریکی فوجی تعلقات تعلیمی و تربیتی پروگراموں کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے پاکستان و افغانستان کیلئے سابق امریکی ایلچی ڈان فیلڈمین نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے کوتاہ بینی فیصلوں کی وجہ بنی ،جس کے منفی نتیجے کے باعث مستقبل قریب میں باہمی تعلقات میں بہتری کا امکان بہت محدود ہو جائے گا۔اسامہ کی ہلاکت کے باوجود جب باہمی تعلقات انتہائی کم سطح پر تھے۔امریکہ نے پاکستانی فوجی افسران کا تربیتی پروگرام متاثر نہ ہونے دینے کی سر توڑ کوشش کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں دوسری بار فوجی افسران کی تربیت بند کی گئی ہے ۔پہلی بار1990میں صدر بش سینئرنے پریسلر ترمیم کے تناظر میں پاکستان کی فوجی امداد اور آئی میٹ نامی پروگرام بند کئے تھے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلوں پر براہ راست کوئی رد عمل دیے بغیر عندیہ دیا ہے کہ وہ عسکری قیادت کیلئے اپنے افسران کو تربیت کیلئے چین و روس بھیج سکتا ہے ۔ اس ضمن میں روس سے چند روز قبل کیا گیا معاہدہ بھی سود مند ثابت ہوسکتا ہے، جس کے تحت پاکستانی افواج کے افسران کو روس تربیت دے گا۔ پاکستانی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلہ پاکستان کو دوسرے ممالک کی جانب رخ کرنے پر مجبور کرے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو سزا دینے کیلئے احمقانہ فیصلہ کیا ہے۔ادھر امریکی ایوان نمائندگان کے 16ارکان نے امریکی وزیر خارجہ پومپیو کو تحریری خط کے ذریعے پاکستان اور چین سمیت اس کے دیگر دوست ممالک کیلئے آئی ایم ایف کے قرض بند کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان و دیگر ممالک نے چین سے اربوں ڈالر قرض لے رکھا ہے، چین ان قرضوں کے ذریعے ان ممالک کی پالیسیوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ یہ ممالک چینی قرضہ اتارنے کی سکت نہیں رکھتے۔ پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے چین سے 5ارب ڈالر قرض لے رکھا ہے۔