عباس ثاقب
اب میرے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں تھا کہ اختر خان اپنے ڈرائیور سے بھی رازداری برتنا ضروری سمجھتے ہیں، لہٰذا ان سے دوبارہ ملاقات کے موقع پر مجھے اس ڈرائیور کی نظروں سے دور رہنا یقینی بنانا پڑے گا۔
ملاقات کے مقررہ دن یعنی جمعہ کی آمد میں ابھی دو دن باقی تھے۔ اب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ یہ دو دن مجھے سلطان المشائخ کی درگاہ پر گزارنے ہیں یا کہیں اور ٹھکانا ڈھونڈنا چاہیے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد میں نے وہ رات دربار پر ہی گزارنا مناسب سمجھا۔ البتہ علی الصباح میں بس اڈے پہنچا اور بھوانی کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں نے وہاںایک درمیانے درجے کے مسافر خانے میں قیام کیا اور جمعے کی صبح ایک بار پھر دلّی کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس دوران میں نے احتیاطاً اپنے اس حلیے میں کئی نمایاں تبدیلیاں کرلی تھیں، جس میں اختر خان کے ڈرائیور نے مجھے دیکھا تھا۔
میں نماز کے وقت سے لگ بھگ ایک گھنٹہ پہلے جامع مسجد پہنچ گیا اور دائیں پہلو والے گیٹ سے لگ بھگ پچاس گز کے فاصلے پر واقع ایک سستے سے طعام خانے میں ایک ایسی جگہ بیٹھ گیا، جہاں سے مجھے مسجد اور اس کے پہلو کی سڑک پر سے گزرنے والی ہر گاڑی باآسانی اور واضح دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے اپنے لیے کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیزیں منگوالیں اور بے تابی سے اختر خان کا انتظار کرنے لگا۔
لگ بھگ بیس منٹ بعد مجھے دور سے اختر خان کے زیر استعمال سفارت خانے کی گاڑی آتی نظر آئی۔ اسے وہی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ میں نے جلدی سے بل چکایا اور طعام خانے سے رخصت ہونے کیلئے تیار ہو گیا۔ گاڑی بلند و بالا دائیں گیٹ کے سامنے رکی۔ ڈرائیور نے اتر کر اختر خان کیلئے دروازہ کھولا اور ان کے مسجد کی سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہی وہاں سے روانہ ہوگیا۔ میں نے حتیٰ الامکان تیزی سے درمیانی فاصلہ طے کیا، لیکن اس دوران اختر خان مسجد میں داخل ہوگئے تھے۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر گیٹ سے اندر داخل ہوا تو وہ سامنے ہی نظر آگئے۔ انہوں نے یقیناً مجھے بدلے ہوئے حلیے کے باوجود دیکھ اور پہچان لیا ہوگا، تاہم وہ میری طرف نظریں اٹھائے بغیر ایک طرف چل پڑے۔ فاصلہ رکھ کر میں بھی ان کا تعاقب کرنے لگا۔ اس وقت تک نمازیوں کی تعداد محدود تھی۔ وہ مجھے اپنے پیچھے لگائے اس طرف کی وضوگاہ پہنچے۔ ہم دونوں نے اجنبیوں کی طرح وضوکیا۔ اس کے بعد وہ مسجد کی ایک جالی دار محراب کے پاس جا بیٹھے، جہاں دھوپ آرہی تھی۔ میں ان کی منشا سمجھتے ہوئے جالی کے دوسری طرف جا بیٹھا۔
اس وقت اس گوشے میں زیادہ نمازی نہیں تھے، اور جو تھے وہ ذکر و اذکار اور تلاوت میں مگن تھے۔ اختر خان نے آنکھیں بند کر کے تسبیح گھماتے ہوئے دھیمے لیکن صاف لہجے میں کہا ’’میاں آپ نے خوب فکر مند کیا ہمیں۔ اپنے ذرائع سے جو اطلاعات ملیں، وہ تو بہت تشویش ناک تھیں۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ لالے، پاکستانی گھس بیٹھیے کی رنگے ہاتھوں گرفتاری کا اعلان کرنے والے ہیں‘‘۔
ان کے خاموش ہونے پر میں نے کہا ’’حالات تو سازگار نہیں تھے جناب، مگر اللہ نے ہر بار غیب سے مدد کر کے بچا لیا‘‘۔
اچانک ان کے لہجے میں ہیجان جھلکا ’’اچھا سچ سچ بتائیں، بٹھنڈا میں خفیہ پولیس کے پانچ اہل کاروں کی ہلاکت، کیا آپ کا کارنامہ تھا؟‘‘۔
میں نے حیرانی سے پوچھا ’’آپ کو یہ بھی معلوم ہے؟‘‘۔
انہوں نے قدرے جھنجلاکر کہا ’’بھائی میاں جس دن غافل ہوگئے، اس عالمِ فانی میں ہمارا آخری دن ہوگا۔ خیر ہم تو جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی دشمنوں کی زد پر آئے ہیں۔ آپ اس واقعے کا بتائیں، جس نے دلّی کے محکمہ داخلہ میں اعلیٰ ترین سطح تک کھلبلی مچادی تھی۔ ہمارے دفتر کو تو گویا خوردبین کے نیچے رکھ لیا تھا انہوں نے۔ ہمارے خلاف کوئی معمولی سا ثبوت بھی مل جاتا تو ہمارے سفارت خانے کو تالا لگاکر وہ ہم سب کو اپنے ملک سے نکال باہر کرتے‘‘۔
میں نے کہا ’’سچ یہ ہے کہ وہ میرے ایک ساتھی کا کارنامہ تھا۔ اس نے مجھے خفیہ والوں کے شکنجے سے چھڑانے کے لیے وہ سب کیا تھا‘‘۔
یہ سن کر وہ چونک اٹھے ’’اوہو! تو آپ پکڑے گئے تھے؟‘‘۔
’’پکڑا ہی نہیں گیا تھا، انہوں نے میری درست شناخت بھی کرلی تھی اور زبان کھلوانے کے لیے تشدد کے شیطانی حربے بھی مجھ پر آزمارہے تھے۔ خدا کا شکر ہے میرا ساتھی جان داؤ پر لگاکر مجھ تک پہنچ گیا، ورنہ شاید میں سب کچھ بتانے پر مجبور ہوجاتا‘‘۔
’’اوہ! تویہ بات ہے!‘‘۔ انہوں نے تشویش آمیز اطمینان کے ساتھ کہا۔ ’’لیکن آپ تو تنہا اس ملک میں آئے ہیں؟‘‘۔
میں نے انہیں مختصر الفاظ میں ظہیر شیخ کے بارے میں بتایا۔ یہ سب سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور اس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ’’ہمیں جموں و کشمیر میں رفتہ رفتہ زور پکڑتی مزاحمتی تحریکوں کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ ہماری طرف سے بعض مجاہد گروپوں کو مدد بھی فراہم کی گئی ہے، لیکن اصل جدوجہد تو انہیں خود ہی کرنی ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر کچھ سہارا مل جائے تو یہ لڑکا ظہیر شیخ ہندوستانیوں کی زندگی اجیرن کر دے گا‘‘۔
میں نے بات کو اصل رخ پر لاتے ہوئے انہیں اپنی ہلواڑا ایئر بیس والی کارگزاری سے آگاہ کیا تو وہ چونک اٹھے۔ ’’کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ آپ ایئر بیس کے اندر گھس کر وہاں کے نقشے بناکر لائے ہیں؟‘‘۔
میں نے ان کی حیرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا ’’جی ہاں۔ وہی نقشے حوالے کرنے کے لیے تو میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔
’’میاں آپ نے تو کمال کر دیا۔ وہ نقشے تو ہمارے بہت کام آئیں گے‘‘۔ ان کے لہجے سے بلا کا جوش اور مسرت جھلک رہی تھی۔ ’’میں تو سمجھا تھا کہ آپ بس پنجاب میں اپنی جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے ساتھی کی مدد سے یہ معرکہ سرانجام دیا ہے؟‘‘۔
میں نے اپنی کارگزاری کا خلاصہ انہیںسنا دیا، جس پر وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے شاباش بھی دی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ٹہلتے ہوئے لمحہ بھر کے لیے میرے پاس رکے۔ میں نے پلک جھپکتے میں وطن کی امانت انہیں تھما دی۔ اس کے بعد انہوں نے مسجد کے ایک اور الگ تھلگ گوشے میں محفوظ جگہ ڈھونڈکر گفتگو آگے بڑھائی ’’اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ نا تجربہ کاری کے باوجود آپ وطن کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں مزید ٹھہرنا آپ کے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ وہ لوگ جان گئے ہیں کہ انہیں کس کی تلاش ہے۔ وہ جلد یا بدیر آپ کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ آپ جیسے باصلاحیت نوجوان سے محروم ہونا ہمارے ملک کے لیے ناکافی نقصان ہوگا‘‘۔
میں نے مداخلت کرنے کے بجائے ان کی طرف سے بات آگے بڑھائے جانے کا انتظار کیا۔ ’’اب آپ جلد از جلد بمبئی چلے جائیں۔ وہاں ایک اہم لیکن خطرناک مشن کی تکمیل کے لیے ہماری کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ضرور کچھ کرگزریں گے…۔ وہاں ہمارے ایک ساتھی آپ کی رہنمائی کریں گے، جن سے ملاقات کا طریقہ کار، جگہ اور وقت آپ کو کل تک بتا دیا جائے گا‘‘۔
یہ خفیہ ملاقات کامیابی سے انجام کو پہنچی۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر میں اپنے ٹھکانے یعنی خواجہ سرکارؒ کے دربار کی طرف روانہ ہوا تو میرا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭