کابل( امت نیوز)افغان طالبان نے گھمسان کی لڑائی کے بعدصوبہ غزنی کے دارالحکومت غزنی شہر میں مورچے مستحکم کرلئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق طالبان شہر میں آزادانہ گشت کر رہے ہیں اور ہر چوراہے پر موجود ہیں۔مساجد سے اعلان کر کے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات دی گئیں۔طالبان نے سرکاری ٹیلی ویژن ہیڈ کواٹراور ٹیلی کمیو نیکیشن ٹاور تباہ کر دیا ،جس کے بعد صرف ریڈیو شریعہ کی نشریات جاری ہیں۔نیویارک ٹائمز کے مطابق طالبان نے شہر میں چیک پوسٹیں قائم کرنا شروع کر دی ہیں۔ افغان فوج کی مزاحمت نظر نہیں آ رہی اورامریکی فضائی حملے بھی رک گئے ہیں۔ صوبائی کونسل کے رکن حکیم اللہ نوروز نے بتایا ہے کہ شہر کا70 فیصد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔دوسری جانب افغان وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ غزنی پر انتظامیہ کا کنٹرول برقرار ہے اوراکا دکا جھڑپیں ہو رہی ہیں۔طالبان ترجمان کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مجاہدین نے غزنی شہر پر چار اطراف سے ہلکے و بھاری ہتھیاروں سے بڑا حملہ کیا ،جو ہفتے کو بھی جاری رہا۔ طالبان نے صبح کے وقت صوبائی گورنر ہاؤس کے محافظوں کے مرکز، فوجی مرکز،شہباز، پیرشہباز، نوآباد کے علاقوں میں 3 چوکیوں اور ایک مرکز کا کنٹرول حاصل کرلیا اور وہاں تعینات درجنوں اہلکار وں کو ہلاک و زخمی اور سرنڈر کر کے ٹینک، فوجی گاڑیاں اور ہتھیار قبضے میں لے لئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق طالبان نے صوبائی سینٹرل جیل اور آس پاس دفاعی چوکیوں پر حملہ کرکے سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا اور سینکڑوں ساتھیوں اور شہریوں کو آزاد کرا کے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ طالبان نے غزنی شہر میں ضلع گيلان کے سربراہ معلم کریم اور پراسیکیورٹر کو فرار کے وقت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ضلع خواجہ عمری کے مرکز کے قریب3 چوکیوں پر قبضہ کر لیا گیا ،جہاں سیکورٹی اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ضلع مقر سے آنے والے فوجی قافلے پر لڑمہ کے مقام پر طالبان نے حملہ کیا اور 15 اہلکاروںکو ہلاک کردیا، جبکہ 3 ٹینک تباہ ہو ئے۔غزنی سے5 ٹینکوں پر فرار ہونے والے فوجیوں سے حیدرآباد کے علاقے میں لڑائی آخری اطلاعات تک جاری تھی۔ طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ حلقہ نمبر5 کے مربوطہ علاقے میں واقع فوجی مرکز میں تعینات درجنوں سیکورٹی اہلکاروں نے ہتھیار ڈال کر3 ٹینک، 4 رینجر گاڑیاں اور کافی مقدار میں مختلف النوع ہلکے و بھاری ہتھیار طالبان کے حوالے کر دیئے ہیں۔طالبان ترجمان کے مطابق لڑائی کے دوران 200 سے زائد افغان سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ مغربی میڈیا کے مطابق شہریوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبان جنگجوؤں کو سڑکوں پر آزادانہ گشت کرتے دیکھا اور طالبان نے مساجد سے اعلان کر کے شہریوں کو گھروں تک محدود رہنے کے لیے بھی کہا ہے۔ صوبائی کونسل کے رکن حکیم اللہ نوروز نے نامعلوم مقام سے فون پر بتایا کہ شہر کا70 فیصد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔صوبائی کونسل کے ایک اور رکن گْل رضاعی کے مطابق شہر پر حکومت کے کنٹرول کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ،کیونکہ طالبان نے مواصلاتی ٹاور تباہ کر دیا اور ٹی وی اسٹیشن کو آگ لگا دی ہے ،جس سے درست اطلاعات نہیں مل رہیں۔نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شہر کے ہر چوراہے پرطالبان موجود ہیں۔ ثنائی ہائی اسکول کے باہر جہاں ایک روز پہلے تک افغان پولیس کی بڑی چیک پوسٹ تھی ،وہاں ہفتے کو نصف درجن کے قریب طالبان موجود تھے ،جو رائفلوں اور راکٹ لانچروں سے لیس تھے۔ اخبار کے مطابق طالبان اپنی چیک پوسٹیں قائم کر رہے ہیں اور افغان فوج کی مزاحمت نظر نہیں آئی ،جبکہ امریکی فضائی حملے بھی رک گئے ہیں۔شہر میں صرف طالبان کے ریڈیوشریعہ کی نشریات چل رہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال ان سرکاری دعوئوں کی تردید کرتی ہے کہ غزنی پر طالبان کا حملہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔ گورنر قندھار کے ترجمان دائود احمدی کے مطابق طالبان نے غزنی شہر کے تمام داخلی راستوں پر بارودی سرنگیں نصب کر دی ہیں۔ افغان حکام کے مطابق گردیز اور کابل سے فوج غزنی بھیجی جارہی ہے ،جس کی راستے میں بھی طالبان سے جھڑپیں جاری ہیں۔ پل تباہ کئے جانے کے باعث کمک میں تاخیر ہو رہی ہے۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے کابل میں میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور غزنی شہر پر طالبان کے قبضے کا خطرہ نہیں۔ امریکی فضائیہ اور افغان کمانڈوز کی مدد سے حملہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔ 2 روزہ لڑائی میں150 طالبان جنگجو جاں بحق ہوئے۔شہر کے مغربی حصے میں وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں ،جبکہ وسطی حصے میں معمولات زندگی بحال ہیں،ٹیلی کام سروسز منقطع کردی گئی ہیں۔مغربی میڈیا کے مطابق کابل حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان مختلف رہائشی علاقوں میں مورچہ زن ہو گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭