کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ 12 مئی پر کمیشن بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے پولیس سے قتل عام سے متعلق 47 بند مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ 12 مئی کوقتل وغارت طے شدہ منصوبہ تھا،پولیس نے معصوم اور بیگناہ شہری مارنے والوں کی نشاندہی کرنے کےبجائے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمات درج کئے اوران مقدمات کو بھی تحقیقات عمل میں لائے بغیر بند کردیا ،تاکہ اصل ملزمان تک نہ پہنچا جائے ۔ صرف ایک بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالا گیا ، بتایا جائے کہ سانحہ 12 مئی کے ماسٹر مائنڈ تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟۔عدالت نے اس حوالے سے پیر کے دن عدالتی معاونین بیرسٹر فیصل صدیقی،شہاب سرکی ایڈووکیٹ اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کوبھی طلب کرلیا ہے۔ہفتہ کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سانحہ بارہ مئی کی ازسرنو تحقیقات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔جسٹس کے کے آغا نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وفاقی حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں، بتائیں کیا اقدام کیا ہے؟ سلمان طالب الدین نے عدالت کی توجہ وزارت داخلہ کے داخل ہونے والے جواب پر مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کا 12 مئی کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں، وفاق نے سندھ میں پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کو تعینات کیا ہوا ہے ،جب کہ رینجرز پولیس کی درخواست پر ہی مدد کو آئے گی۔ جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ اتنا عرصہ گزر چکا ہے ،لیکن مقدمات حل ہی نہیں ہوئے ہیں ،نہ ہی ٹھیک طریقے سے تحقیقات عمل میں لائی گئیں ہیں ،کیوں نہ 12 مئی کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنا دیا جائے۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ٹی او آرز طلب کرتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معزز عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کمیشن تشکیل دے، کمیشن واقعہ کے اصل حقائق سامنے لانے کے لیے بنایاجاتا ہے لہذا عدالت کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ پولیس نے 12 مئی کے مقدمات نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیے ہیں ،اب پولیس نامعلوم ملزمان کے خلاف کیا تحقیقات عمل میں لائے گی ۔اتنا عرصہ گزر چکا ہے ،حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ پھر 12 مئی کے ماسٹر مائنڈ تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے، سڑکوں پر قتل و غارت گری ہوئی تھی ،کوئی تو ذمہ دار ہو گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیشن سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ 12 مئی سے متعلق جو مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ،انہیں جلد نمٹانے کا حکم دے ،کیونکہ کمیشن کا نتیجہ کیا نکلے گا ،سب کو معلوم ہے۔جسٹس کے کے آغا نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 12 مئی 2007 کو کتنے مقدمات درج کیے تھے ۔سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ مختلف تھانوں میں 12 مئی کے دن قتل، اقدام قتل، جلاؤ گھیراو ہوائی فائرنگ نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے سمیت دہشت گردی ایکٹ کے تحت 54 مقدمات درج کیے گئے تھے ،جن میں سے 7 مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ باقی مقدمات نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ہیں، جنہیں اے کلاس کرکے بند کردیا گیاہے ۔ عدالتی استفسار پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ مقدمات میں نامزد میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر ملزمان ضمانتوں پر رہا ہیں ،کچھ ملزمان تاحال مفرور ہیں ،جنہیں پولیس ابھی تک گرفتار نہیں کرسکی ہے۔جسٹس کے کے آغا نے پراسیکیویشن پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیویشن کا کام ہے کہ وہ تفتیشی افسر کے ساتھ تعاون کریں، لگتا ہے کہ پراسیکیویشن نے بھی ٹھیک طریقے سے کام نہیں کیا۔ فاضل جج نے پولیس کے قانونی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالا گیا تھا ۔مفرور ملزمان کو کیوں نہیں پکڑا گیا ۔اے آئی جی لیگل نے جواب دیا کہ مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کے لیے نادرا سے رابط کیا ہوا ہے ۔جسٹس کے کے آغا نے کہا یہ بتائیں کہ شناختی کارڈ بلاک ہوئے ہیں یا نہیں ،نادرا کو جو خط لکھا تھا ،اسکی نقول پیش کریں ۔اے آئی جی لیگل نے جواب دیا کہ انہیں مہلت دی جائے ،خط کی نقول اور مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے سے متعلق تفصیلی جواب داخل کرادیں گے۔ درخواست گزار اقبال کاظمی نے عدالت کو بتایا کہ 12 مئی 2007 کو سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پراس وقت کے چیف جسٹس کو جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے باہر نہ نکلنے کے لیے منصوبہ تشکیل دیا گیاتھا، جس پر الطاف حسین نے متحدہ کے دہشت گردوں کے ذریعے عمل کرایا، اس وقت کے مشیر داخلہ وسیم اختر نے معاونت کیلئے شہر کی اہم شاہراہوں پر کنٹینرز لگوا دئیے ،تاکہ لوگ چیف جسٹس کے استقبال کے لیے نہ جاسکیں، متحدہ کے دہشت گردوں نے جدید اسلحہ کے ساتھ مورچہ سنبھال کر لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں ،جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔درخواست گزار نے مزید بتایا کہ دہشت گردوں نے سندھ ہائی کورٹ میں ججز کوبھی محصور کردیا تھا،لارجر بنچ نےکیس کی سماعت کی تو اس دوران بھی متحدہ کے دہشت گرد وں نے عدالت کا گھیراؤ کرلیا۔ لہذا استدعا ہے کہ سانحہ12 مئی کی ازسرنو تحقیقات کرائی جائے۔