سرفروش

0

قسط نمبر 85

عباس ثاقب

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)

اپنی منزل پر پہنچ کر میں نے حسبِ معمول پہلے خواجہ پیاؒ کے محبوب مرید حضرت امیر خسروؒ کی آخری آرام گاہ پر حاضر ہوکر درود و فاتحہ پیش کی اور پھر ان کے عالی مقام مرشد کی تربت پر حاضری دی اور اتنے کٹھن حالات میں بھرپور سرپرستی اور میزبانی پر تہہ دل سے اظہارِ تشکر کیا۔ ساتھ ہی اپنی آئندہ ذمہ داریوں کے لئے بھی اللہ رب العزت کے حضور دعا کی درخواست کی۔
اس موقع پر میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ شاعرِ مشرق، عاشقِ رسول علامہ اقبالؒ کی بغرض تعلیم یورپ روانگی سے پہلے خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے دربار پر حاضری اور ان سے کامیابی کے لیے التجا کا تاریخی منظر میرے ذہن میں مصور ہورہا تھا۔ اس عظیم شاعر نے تو شاید ’’التجائے مسافر‘‘ جیسی دل پر اثر کرنے والی نظم پیش کر کے خواجہ جیؒ کا دل موہ لیا ہوگا۔ اسی لیے یورپ میں ہی نہیں، زندگی بھر کامیابیاں ان کے ہم قدم رہیں۔ میں ان کا سا اندازِ بیاں اور سپاس گزاری کا ہنر کہاں سے لاتا کہ
’’فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تیری، فیض عام ہے تیرا
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا‘‘
لہٰذا اقبال ہی کی التجا دہرانے میں عافیت سمجھی اور اسی نظم کے اس آخری شعر کے ذریعے اپنی اعانت کی درخواست کر کے اپنے شب بسری کے گوشے کی طرف چلاآیا:
’’شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے‘‘
میرے دل کی اضطراری کیفیت کچھ سکوں پذیر ہوچکی تھی اور میں اب زیادہ یکسوئی سے خود کو درپیش صورتِ حال پر غور کر سکتا تھا۔ اختر صاحب نے میری تلاش کے حوالے سے جو کچھ بتایا، وہ انتہائی تشویشناک تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں دلّی کے گلی کوچوں میں اپنی اصل شکل و صورت اور حلیے کے ساتھ مٹر گشت کرتے ہوئے محض اپنی خوش قسمتی اور خواجہؒ کی مہمان نوازی کی بدولت اب تک اپنے شکاریوں کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہا تھا۔
اگر میں اس روز بھی شب بسری کے لیے بھوانی کا رخ کرنے کے بجائے دلّی کے کسی ہوٹل یا مسافر خانے میں کمرا حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو شاید صبح ہونے سے پہلے محکمہ خفیہ کا مہمان بن چکا ہوتا۔ لیکن اب مجھے ادراک ہو رہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے گوشے گوشے سے حاضری دینے والے عقیدت مندوں کے ہجوم کے باوجود اس درگاہ میں میرا اپنے دشمنوں کی نظروں میں آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ وہ گھاگ لوگ بخوبی ادراک رکھتے ہوں گے کہ ایسے مقامات میرے جیسے بے ٹھکانا، بے گھر، بے در کے لیے بہترین پناہ گاہ بن سکتے ہیں، لہٰذا زائرین کی نگرانی کا کوئی نہ کوئی بندوبست ضرور رکھا گیا ہوگا۔ میری خوش نصیبی یا نگرانوں کی نااہلی ہی ہے کہ میں اب تک نظروں میں آنے سے بچا ہوا تھا۔ شاید ہزاروں زائرین میں سے کسی مشکوک فرد یا افراد کو کھوجنے کے بے زار کن کام نے انہیں اپنے فرائض سے غافل بنا رکھا ہو۔
یہ سب تشویش ناک خیالات میری نیند اڑانے کے لیے کافی تھے۔ میں رات گئے تک جاگتا رہا اور میری نظریں بار بار اپنے آس پاس نیند میں کھوئے زائرین کا جائزہ لیتی اور کسی مشکوک نقل و حرکت کی تاک میں رہیں۔ صبح ہونے پر بھی میں نے معمول کے مطابق مزار کے اردگرد کے علاقے میں چہل قدمی کے بجائے، اپنے گوشۂ عافیت تک محدود رہنا غنیمت سمجھا۔
دوپہر ہونے پر حسبِ معمول لنگر بٹنے کا شور و غوغا بلند ہوا۔ زائرین تیزی سے لنگر گاہ کارخ کر رہے تھے۔ صبح ناشتہ نہ کرنے کی وجہ سے بھوک سے میرا برا حال تھا، چنانچہ کچھ دیر انتظار کے بعد میں نے بھی تمام تر اندیشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کھانے کی جستجو کا فیصلہ کیا۔ لنگر گاہ میںاس وقت تک زائرین کا ہجوم ہو چکا تھا اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے باوجود بار بار ہڑبونگ کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ صورتِ حال غیر معمولی نہیں تھی۔ لیکن اس وقت میری ذہنی کیفیت کچھ اور تھی۔ لہٰذا میں نے قطار میں لگنے کے بجائے وہاں سے پلٹ جانے کا سوچا۔
میں اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی نظروں کی توجہ بننے کا احساس ہوا۔ میرے وجود میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے دھڑکا لگا ہوا تھا۔ میں نے بظاہر بے نیازی سے اردگرد کا جائزہ لیا۔ بالآخر میں نے وہ شخص ڈھونڈ لیا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اپنا اعصابی تناؤ ڈھیلا پڑتا محسوس ہوا۔ خفیہ پولیس کے کسی خرانٹ اہلکار کے بجائے ایک خوش جمال نوجوان خاتون کی دلچسپی بھری نظریں میرا جائزہ لے رہی تھیں۔ گلابی قمیص شلوار اور گہری نیلی شال میں ملبوس وہ خاتون اپنے حلیے سے مجھے واضح طور پر اپنی ہم مذہب لگیں۔
مجھے اپنی شخصیت کے حوالے سے کبھی کوئی خوش فہمی نہیں رہی، لیکن نوجوانی کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد سے ہی مجھے بغیر کسی نمایاں پیش رفت کے مسلسل صنفِ مخالف کی توجہ حاصل ہوتی رہی ہے۔ لہٰذا لگ بھگ بائیس تیئس برس کی ان محترمہ کی توجہ حاصل ہونا میرے لیے کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ لیکن میرے حالات مجھے کسی حسین دلچسپی کی طرف متوجہ ہونے کی قطعاً اجازت نہیں دے رہے تھے۔ لہٰذا میں نے نظریں ملنے کے باوجود ان خاتون کی طرف دوبارہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے حصے کا کھانا لے کر واپس اپنے منتخب کردہ گوشے میں جا بیٹھا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More