امت رپورٹ
عمران خان پر انٹرویو نہ دینے کی رضاکارانہ یا غیر رضاکارانہ پابندی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد ملکی و غیر ملکی میڈیا ٹیموں کو مایوس لوٹایا جا چکا ہے۔ حالانکہ وہ باقاعدہ اپائنمنٹ لے کر اسلام آباد پہنچی تھیں۔
باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اپنی ’’وکٹری اسپیچ‘‘ میں کپتان نے کئی باتیں زمینی حقائق کے برخلاف کر دی تھیں۔ ان میں سے بعض ان کے گلے پڑ گئیں۔ جس میں دھاندلی سے متعلق تمام حلقے کھلوانے کی پیشکش شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح عمران خان نے پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں کھولنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت پاک فوج جان پر کھیل کر پاک افغان سرحد پر آہنی باڑھ نصب کر رہی ہے اور اس کا مقصد دہشت گردوں کی در اندازی روکنا ہے۔ تاہم عمران خان نے اس پالیسی کو سمجھے بغیر دونوں ممالک کی سرحدیں اوپن کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق اپنی ’’وکٹری اسپیچ‘‘ میں عمران خان کا یہ کہنا کہ اپوزیشن جس حلقے میں دھاندلی کی نشاندہی کرے گی، اسے کھول دیا جائے گا۔ بعد ازاں ’’جذبہ خیر سگالی‘‘ کا یہ اظہار سیاسی طور پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے لئے مسئلہ بن گیا۔ اپوزیشن کو ایک ایشو مل گیا اور اب تک اس معاملے پر پارٹی کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان سب غلطیوں کا ادراک کئے جانے کے بعد ہی پارٹی قیادت کے مشورے پر عمران خان نے یہ فیصلہ کیا کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائے جانے اور بالخصوص سیکورٹی امور پر اہم اداروں کی بریفنگ سے قبل میڈیا کو کسی قسم کا انٹرویو نہیں دیں گے۔ تاہم اس معاملے سے آگاہ ایک دوسرے ذریعے کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں بعض ’’خیر خواہوں‘‘ کی طرف سے پیغام آیا تھا، جو طاقت کا محور سمجھے جاتے ہیں۔ ان ’’خیر خواہوں‘‘ کا کہنا تھا کہ بطور پارٹی صدر مختلف معاملات اور بالخصوص سیکورٹی امور پر بیان دینا یا تقریر کرنا دوسری بات ہے، جبکہ وزیر اعظم کے طور پر کوئی بھی بات کرتے وقت ریاستی پالیسیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا حلف اٹھانے کے بعد ہر وزیر اعظم کی طرح جب اہم ملکی اداروں کی طرف سے عمران کو بھی بریفنگ مل جائے گی تو اس کے بعد ہی وہ ملکی و غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دینے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔
الیکشن کے دوسرے روز اکثریت ملنے پر عمران خان نے ’’وکٹری اسپیچ‘‘ کی تھی، جو اسد عمر نے لکھی تھی۔ اس کے بعد سے کپتان نے میڈیا کو انٹرویو نہیں دیا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اس اسپیچ کے بعد سے قریباً ڈیڑھ درجن کے قریب ملکی و غیر ملکی چینلز اور اخبارات کے نمائندوں نے عمران خان سے انٹرویو کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ اس سلسلے میں بعض غیر ملکی چینلز سے عمران خان کے قریبی رہنمائوں نے Commitment بھی کر لی تھی۔ لیکن عین ٹائم پر انکار کر دیا گیا۔ سب سے زیادہ مایوسی ایک معروف بین الاقوامی نیوز چینل کی ٹیم کو ہوئی، جو نعیم الحق اور عون چوہدری کے وعدے پر ہزاروں کلو میٹر کا سفر کر کے اسلام آباد پہنچی تھی۔ اس ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ انہوں نے ایک ہفتے تک اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالے رکھا، کیونکہ وہ نعیم الحق اور عون چوہدری سے باقاعدہ اپائنمنٹ لے کر عمران خان کے انٹرویو کے لئے لندن سے پاکستان پہنچے تھے۔ پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا اور پھر آخر میں قطعیت سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ ’’خان صاحب‘‘ نے حلف اٹھانے سے پہلے میڈیا کو کسی قسم کا انٹرویو نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر انہیں مایوس ہو کر واپس جانا پڑا۔ اس طرح نہ صرف ان کا وقت برباد ہوا، بلکہ پیسے بھی ضائع گئے۔
اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم، ملک کے چیف ایگزیکٹو جیسے اہم اور حساس عہدے پر بیٹھتا ہے۔ لہٰذا اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ریاستی پالیسی تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وزیر اعظم کو حلف اٹھانے کے بعد بالخصوص سیکورٹی امور پر ریاستی پالیسی سے متعلق بریفنگ دی جاتی ہے۔ تاکہ وزیر اعظم جب غیر ملکی شخصیات اور میڈیا سے بات کرے تو ان امور کے بارے میں اسے مکمل آگاہی حاصل ہو اور کوئی ایسی بات نہ کر دے جو ریاستی پالیسی کے برخلاف ہو۔ یہ معاملہ عمران خان کے لئے اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کہ وہ پہلی بار وزیر اعظم بن رہے ہیں اور ملکی سیکورٹی امور تو کجا انہیں پوری طرح اپنے پارلیمانی نظام سے بھی آگہی نہیں ہے۔ ذرائع کے بقول پاک فوج سے زیادہ سیکورٹی اور اسٹرٹیجک معاملات کی سوجھ بوجھ ملک کے کسی ادارے میں نہیں۔ فوج کی اپنی تین فورسز ہیں۔ قومی سلامتی کے ادارے ہیں۔ اوپر جی ایچ کیو اور جے ایس ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ ایئر وار اور نیول وار کالجز ہیں۔ یہ سب مل کر ہر برس پیپرز تیار کرتے ہیں۔ جس کو سامنے رکھ کر آئندہ کے سیکورٹی اور اسٹرٹیجک منصوبے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ بعد ازاں اس پلان کو وزارت خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد جب اس حوالے سے بریفنگ لیں گے تو انہیں حقائق کا درست ادراک ہو سکے گا۔ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کے طور پر گپ شپ لگا دینا بالکل مختلف بات ہے۔ جیسا کہ بغیر بریفنگ لئے ان کی ’’وکٹری اسپیچ‘‘ تھی۔ ذرائع کے بقول حلف اٹھانے کے بعد سیکورٹی اور اسٹرٹیجک معاملات پر عمران خان کو جی ایچ کیو ہیڈ کوارٹر، جے ایس ہیڈ کوارٹر، ایئر ہیڈ کوارٹر اور نیول ہیڈ کوارٹر میں بلایا جائے گا۔ اس موقع پر انہیں بتایا جائے گا کہ کیا کرنا ہے اور کس طرح آگے چلنا ہے۔
اعلیٰ سیکورٹی حلقوں سے جڑے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لئے مطلوبہ نمبر گیم کے سلسلے میں عمران خان نے ایم کیو ایم سے ڈیل کر کے ان کے تمام تحریری اور پس پردہ کئے جانے والے غیر تحریری مطالبات تسلیم کر لئے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کے مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں میں سے ایک کراچی آپریشن پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری پارٹی کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچستان میں آپریشن ختم کر دیا جائے۔ پہلے ان ہی لوگوں کے مطالبے پر فوج کو بلوچستان سے ہٹا کر ایف سی تعینات کی گئی تھی۔ اب یہ لوگ ایف سی کو بھی ہٹانا چاہتے ہیں۔لیکن بریفنگ کے بعد جب عمران خان کو سمجھ آئے گی کہ کراچی میں جان لڑا کر قائم کئے جانے والے امن سے متعلق آپریشن جاری رکھنا اور بلوچستان میں ایف سی کی موجودگی کتنی ضروری ہے تو پھر وہ یہ مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہوں گے۔ اسی طرح عمران خان کی سپورٹ کے عوض اختر مینگل نے مسنگ پرسن کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وہ یہ مطالبہ کس سے کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول ان افراد کو اداروں نے اٹھایا ہے۔ پہلے وہ ان کی تعداد دو ہزار بتاتے تھے اور اب یہ تعداد دو تین سو پر آ چکی ہے۔ ذرائع کے بقول عمران خان نے ریاستی سیکورٹی معاملات کو سمجھے بغیر ان دونوں پارٹیوں کے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں کہ انہیں فی الحال وزارت عظمیٰ کے لئے نمبر گیم پورے کرنے ہیں۔ تاہم جب وہ حقائق کا ادراک ہونے پر یہ مطالبات پورے نہیں کر سکیں گے تو یہ چھوٹی پارٹیاں انہیں بلیک میل کریں گی۔ حکومتی اتحاد سے باہر نکلنے کی دھمکی دیں گی۔ جس پر پی ٹی آئی کو ایک بار پھر نمبرگیم کا مسئلہ پڑ جائے گا۔ ذرائع کے بقول ماضی میں پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ استعفے دے کر چھ سات ماہ اسمبلی سے باہر بیٹھے رہے تھے، لیکن نون لیگی حکومت نے گالیاں کھا کر بھی ان کے استعفے قبول نہیں کئے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں اسے خطرہ تھا کہ اگر ایم کیو ایم بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مل گئی تو لیگی حکومت گر جائے گی۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) نے دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائی تھی۔ اس کے باوجود اسے دانتوں تلے پسینہ آ گیا تھا۔ لہٰذا سادہ اکثریت سے بھی محروم تحریک انصاف یہ ممکنہ سچویشن جھیلنے کی پوزیشن میں کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت کتنی کمزور وکٹ پر کھیلنے جا رہی ہے۔٭