متحدہ کو دہشت گرد قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

0

کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ 12 مئی پر متحدہ کو دہشت گرد جماعت قرار دینے، سانحہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دینے، ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لانے اور جاں بحق و زخمی افراد کے اہلخانہ کو معاوضہ ادا کرنے سے متعلق دائر درخواست پر وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔ پیر کو جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل 2رکنی بنچ نے سانحہ بارہ مئی کیس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت پر عدالتی معاونین بیرسٹر فیصل صدیقی اور شہاب سرکی پیش ہوئے اور بتایا کہ 12 مئی2007 کو افسوس ناک واقعہ ہوا تھا، جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد پر وکلا اور عوام کی بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے کراچی ایئر پورٹ جارہی تھی کہ ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کرکے لوگوں کو سرعام ہلاک کیا۔اس سانحہ کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔بدقسمتی سے عرصہ گزر جانے کے باوجود سانحہ کی تحقیقات ہی نہیں ہوئی اور ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا نہیں جاسکا، لہذا سانحہ کی تحقیقات ضروری ہیں۔ملزمان کو سزا ملنی چاہئے تاکہ آئندہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ کیا سانحہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔معاونین نے جواب دیا کہ معزز عدالت کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ سانحہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے سکتی ہے، تاکہ سانحہ کے اصل حقائق کوسامنے لایا جائے۔جسٹس محمد اقبال کہلوڑو نے کہا کہ ہائی کورٹ کا 5 رکنی بنچ فیصلہ دے چکا ہے۔اب 2 رکنی بنچ کیا کرسکتا ہے۔معاونین نے جواب دیا کہ پی سی او ججز نے فیصلہ دیا تھا۔آزاد عدلیہ کے وجود میں آنے کے بعد پی سی او ججز کو فارغ کردیا گیا تھا۔اس حوالے سے اعلیٰ عدالت کے فیصلے بھی موجود ہیں۔معاونین نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقول پیش کی اور مزید بتایا کہ سانحہ 12 مئی سے متعلق درخواست زیر التوا تھی، جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہدایات جاری کی کہ اس درخواست کو نمٹایا جائے اور رپورٹ طلب کررکھی ہے۔ معزز عدالت کو مکمل اختیار ہے کہ وہ قانون کے تحت احکامات جاری کرے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ معزز عدالت سپریم کورٹ کو کیس تجاویز بھی پیش کرسکتی ہے، جس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار از خود نوٹس بھی لے سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ چاہے تو عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیس کو نمٹا سکتی ہے،اسی طرح دیگر آپشن بھی موجود ہیں، جس کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔معاونین نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کی استدعا کو منظور کیا جاسکتا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ معزز عدالت کو مکمل اختیار ہے کہ وہ کارروائی کرے۔ صوبائی حکومت عدالتی احکامات پر مکمل عمل درآمد کرے گی۔عدالتی استفسار پر پراسیکیوٹر نے سانحہ 12 مئی سے متعلق بند ہونے والے مقدمات کی تفصیلات جمع کرائی۔درخواست گزار اقبال کاظمی نے عدالت کو بتایا کہ سانحہ 12 مئی کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو قتل کیا تھا۔یہ سب کچھ سابق صدر پرویز مشرف کی ایما پر لندن میں بیٹھے اشتہاری الطاف حسین کی ہدایت پر کراچی میں موجود متحدہ کے دہشت گردوں نے کیا تھا، جس کے شواہد موجود ہیں۔میڈیا میں متحدہ کے دہشت گردوں کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔اقبال کاظمی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو قتل کرنے کے بعد پولیس نے تحقیقات ہی نہیں کی تھیں، کیونکہ پولیس پرویز مشرف اور اس وقت متحدہ کی حکومت سے خوف زدہ تھی۔پولیس کے افسران کو قتل کردیا گیا تھا، جنہوں نے پہلے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔درخواست گزار نے بتایا کہ اس وقت کے مشیر داخلہ وسیم اختر نے اہم شاہراہوں پر کینٹنرز لگا دئیے تھے تاکہ لوگوں کو آسانی کے ساتھ مارا جائے اور کوئی بھی شخص چیف جسٹس کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ نہ جاسکے۔متحدہ نے ہی قتل و غارت گری کا منصوبہ بنایا تھا۔ان کے لوگ اقتدار میں بیٹھے ہوئے تھے دہشت گرد منصوبہ میں کامیاب ہوئے اور چیف جسٹس کو ایئر پورٹ سے باہر ہی نکلنے نہیں دیا گیا تھا۔پولیس نے 12 مئی کے مقدمات میں متحدہ کے دہشت گردوں کو پکڑا ہے، لہذا ضروری ہے کہ متحدہ پر پابندی عائد کردی جائے تاکہ آئندہ کوئی جماعت دہشت گردی اور لوگوں کو مارنے کا منصوبہ نہ بنائے۔سانحہ کے متاثرین 11 برس سے انصاف کے منتظر ہیں۔حکومت نے مقتولین کے اہلخانہ کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے۔صوبائی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ مقتولین کے اہلخانہ کو معاوضہ ادا کریں اور ہائی کورٹ کے موجودہ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جائے، جو سانحہ کی آزادانہ طور پر مکمل تحقیقات عمل میں لائے اور ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دلائی جائے تاکہ لوگوں کو انصاف ملے۔گزشتہ سماعت پر وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نےعدالت کو بتایا تھا کہ معزز عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کمیشن تشکیل دے۔عدالت کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ پولیس نے 12 مئی کے مقدمات نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیے ہیں۔اب پولیس نامعلوم ملزمان کے خلاف کیا تحقیقات عمل میں لائے گی۔اتنا عرصہ گزر چکا ہے۔معزز عدالت چاہے تو سانحہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنالے، کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کمیشن کے تشکیل دینے سے عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More