پاکستان قدم بہ قدم

0

آپریشن پاکستان کا آغاز
یکم ستمبر 1947ء کو حکومت پاکستان نے بی او اے سی کے 23 چارٹرڈ جہازوں کی مدد سے دہلی میں پھنسے ہوئے پاکستانی ملازمین کو پاکستان پہنچنے کے کام کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کو ’’آپریشن پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان 23 جہازوں نے 15 دنوں میں مجموعی طور پر 482 پروازیں کیں اور تین لاکھ تیس ہزار میل کا سفر طے کیا۔ ان پروازوں کے ذریعے بھارت سے سات ہزار سرکاری ملازمین پاکستان اور پاکستان سے ڈیڑھ ہزار ملازمین بھارت پہنچائے گئے۔ آپریشن پاکستان کے اختتام کے اگلے دن 16 ستمبر 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے بی او اے سی کے افسران مسٹر لی اور ایئر کموڈور بریکلے سے ملاقات کی اور ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا
30 ستمبر 1947ء کو پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بن گیا۔ اسی دن شمالی یمن بھی اقوام متحدہ کا رکن بنا۔
پاکستان اس ادارے کی رکنیت حاصل کرنے والا دنیا کا 56 واں ملک تھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کو رکن بنانے کی تجویز اقوام متحدہ میں انگلستان کے مندوب مسٹر ہیکٹر میک نیل (Mr.Hector McNeil) نے پیش کی تھی جس کی تائید میں بھارت، مصر، امریکا، ایران، عراق، ترکی، لبنان اور برازیل کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی جس میں اجلاس میں موجود 54 ممالک میں سے 53 ممالک نے اس تجویز کو منظورکر لیا۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔
قائداعظم امدادی فنڈ کا قیام
12 ستمبر 1947 کو قائداعظم نے مہاجرین کی امداد اور آبادکاری کے لیے ایک خصوصی فنڈ قائم کیا جس کا نام ’’قائداعظم امدادی فنڈ‘‘ رکھا گیا۔ اس موقع پر قائداعظم نے قوم سے جو اپیل کی اس کا متن حسب ذیل ہے۔
’’مشرقی پنجاب، دہلی اور ہندوستانی مملکت کے دوسرے حصوں میں ہمارے لوگوں پر جو ظلم وستم توڑا گیا۔ شدت کے لحاظ سے اس کی شاید ہی کوئی نظیر ہو۔ ان کی وجہ سے پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد زبردست مسائل سے دوچار ہوگیا۔ جب سے ہم نے اقتدار سنبھالا ہے۔ میرا اور میری حکومت کا وقت اور توانائی کا بیشتر حصہ اس سنگین بحران سے نمٹنے میں صرف ہوا ہے۔ ایک آفت کے بعد دوسری آفت آتی ہے جو اس کی شدت کو اور تیز کردیتی ہے یا اس کی زیادتی میذں اضافہ کردیتی ہے۔
اب ہمیں اپنے ان لاکھوں بھائیوں کی امداد کرنے کے بارے میں سوچنا ہے جو اس مصیبت سے دوچار ہیں۔ قوم اس بات سے آگاہ ہے کہ اس مقصد کیلئے کابینہ کی ایک ہنگامی کمیٹی کی تشکیل کی جاچکی ہے جس کا روزانہ اجلاس ہوتا ہے اور ایک علیحدہ وزارت برائے مہاجرین، تارکین وطن اور بحالیات قائم کردی گئی ہے۔ ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ اس زبردست کام کو سرانجام دینے اور ساری دشواریوں پر قابو پانے کیلئے ملک کے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔
لیکن اس گھمبیر قومی بحران سے نمٹنے کے لیے ریاست کے وسائل میں خود لوگوں کے اپنے نجی عطیات بھی شامل ہونے چاہیں۔ ان کی تائید اور تعاون سے وہ کچھ ہوجاتا ہے جو تنہا سرکاری تنظیموں اور امداد سے نہیں ہوپاتا۔
میں نے بڑے اضطراب اور احتیاط سے غور کیا کہ اس کام کو کیسے کرنا چاہیے اور فیصلہ کیا کہ فوری طور پر ایک فنڈ قائم کرلیا جائے جو ’’قائداعظم کا امدادی فنڈ‘‘ کے نام سے موسوم ہو۔ اس فنڈ کا انتظام چھ ارکان اور مجھ پر مشتمل ایک مرکزی کمیٹی کرے گی۔ یعنی وزیر خزانہ، وزیر مہاجرین و تارکین وطن کی بحالیات، گوررن سندھ اور صدر صوبہ سندھ مسلم لیگ اور آڈیٹر جنرل پاکستان جو اس کے خازن ہوں گے۔ مرکزی کمیٹی کے تحت صوبائی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ صوبائی گورنر ان کے چیئرمین ہوں گے۔ بلوچستان کے لیے چیئرمین چیف کمشنر ہوں گے جو ضلعی کمیٹیاں تشکیل دیں گے۔ میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور فیاضی کے ساتھ اس فنڈ میں عطیات دیں اور اس مقصد کیلئے کسی قربانی یا کوشش سے دریغ نہ کریں۔ آج سے سب مرد و زن یہ عہد کریں کہ آئندہ وہ خوراک و لباس اور دیگر سہولیات زندگی کے معاملے میں سادگی کوشعار بنائیں گے۔ اس طرح جو روپیہ پیسہ ، اشیائے خوردنی اور ملبوسات پس انداز ہوں گے انہیں ستم رسیدہ لوگوں کی اعانت کے ذخیرے میں لے آئیں گے۔
ریاست بہاولپور نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے علاقے میں ایسی کئی ریاستیں بھی شامل ہوئی تھیں جو نہ صرف اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھنے کیلئے آزاد تھیں بلکہ انہیں یہ اختیار بھی حاصل تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان جس کے ساتھ چاہیں شامل ہوجائیں۔ ان ریاستوں کی مجموعی تعداد 11 تھی اور ان کے نام تھے۔ قلات، مکران، بہاولپور، خاران، لسبیلہ، چترال، خیرپور، دیر، امب، سوات اور جونا گڑھ، ان تمام ریاستوں میں سے جس ریاست نے پاکستان سے الحاق میں اولیت حاصل کی وہ ریاست بہاولپور تھی۔ ریاست بہاولپور نے اپنے اس تاریخی فیصلے کا اعلان 7 اکتوبر 1947 کو کیا۔ بعد ازاں دیگر ریاستیں بھی ایک ایک کرکے پاکستان کا حصہ بن گئیں۔
جونا گڑھ پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ
15ستمبر1947 کو ریاست جونا گڑھ کے مسلمان حکمرانوں نے اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر چونکہ اس ریاست کی آبادی کی غالب حصہ ہندوؤں اور غیر مسلموں پر ممشتمل تھا اس لئے بھارت کو جونا گڑھ کے حکمرانوں کے اس فیصلے کا بڑا دکھ ہوا۔
بھارتی حکومت نے بین الاقوامی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 8 نومبر 1947 کو ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کرلیا۔ پاکستان نے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں بھی پیش کیا مگر یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے اور جونا گڑھ پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ جاری ہے۔
حکومت آزاد کشمیر کا قیام
24 اکتوبر 1947 کو ہزاروں مسلح قبائلیوں نے کشمیر کے ڈوگرہ راجہ، مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف جہاد میں مظفر آباد تک رسائی حاصل کرلی اور وہاں آزاد کشمیر کی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا ’’چند ہفتے قبل، جموں و کشمیر کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ناقابل برداشت مظالم کے خاتمے اور ریاستی عوام کو خود مختار حکومت کا حق دلانے کیلئے جو عبوری آزاد حکومت قائم کی تھی وہ اب ریاست کے ایک بڑے حصے پر اپنی حکمرانی قائم کرچکی ہے۔ یہ حکومت توقع کرتی ہے کہ ڈوگرہ سرکاری کے ماتحت باقی ماندہ علاقوں کو بھی جلد آزاد کروالیا جائے گا۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تنظیم نو کی گئی ہے اور پونچھ کے ایک بیرسٹر ایٹ لا، سردار محمد ابراہیم خان کو اس عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ‘‘
پاکستان کی پہلی عیدالاضحیٰ منائی گئی
24 اکتوبر 1947 کو پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد پہلی عیدالاضحیٰ منائی گئی۔ اس موقع پر اپنے پیغام عید میں قائداعظم نے فرمایا:
’’اس مبارک دن پر میں اپنی اور پاکستان کے عوام کی جانب سے ساری دنیا کے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ پاکستان میں ہمارے لئے تشکر اور مسرت کے اس دن پر مشرقی پنجاب اور اس کے گردونواح کے پچاس لاکھ مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹنے کی وجہ سے ایک گہرے غم کا احساس طاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس متبرک دن مسلمان مرد اور عورتیں جہاں کہیں بھی موجود ہوں گے ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے جو اپنے اعزاء و اقربا اور گھر بار سے محروم ہوچکے ہیں اور اس قدر تکلیف اور مصیبت سے دوچار ہیں جس قدر اذیتیں شاد ہی کبھی بنی نوع انسان پر ڈھائی گئی ہوں گی۔ اس مظلوم انسانیت کے نام پر مسلمانوں سے وہ جہاں کہیں بھی ہوں میں دوبارہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ خطرے اور ضرورت کے اس موقع پر اپنی برادارانہ ہمدردی، حمایت اور تعاون کا ہاتھ ہماری طرف بڑھائیں۔ اب دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے وجود کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ہمیں جس قدر عظیم قربانیاں دینی ہوں گی ہم اسی قدر باصفا اور پاکیزہ تر ہوجائیں گے جیسے سونا جب بھٹی سے نکلتا ہے تو کندن بن جاتا ہے۔
پس آپ سب کے لئے میرا پیغام ’امید‘ حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے۔ آئیے ہم باقاعد اور منظم طریقے سے اپنے تمام وسائل مجتمع کرلیں اور درپیش سنگین مسائل کا ایسے عزم بالجزم اور نظم و ضبط سے مقابلہ کریں جو ایک عظیم قوم کا سرمایہ ہوتا ہے۔‘‘
گلگت اور بلتستان پاکستان کا حصہ بنے
قیام پاکستان سے ذرا پہلے یکم اگست 1947 کو حکومت برطانیہ نے گلگت ایجنسی کو ریاست کشمیر میں شامل کردیا تھا جس سے ریاست میں بڑا ہیجان پیدا ہوا۔ 26 اکتوبر 1947 کو جب مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی باضابطہ درخواستکی تو گلگت کے عوام نے بھی سرتابی شروع کردی اور یکم نومبر 1947کو کرنل مرزا حسن علی خان نے ایک عارضی حکومت قائم کردی جسے ہنزہ اور نگر کے امیروں اور گلگت کے علاقے کے دوسرے راجاؤں اور سرداروں کی تائید حاصل تھی۔ انہوں نے 5 نومبر 1947 کو حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ گلگت ایجنسی کا انتظام اور حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی، چنانچہ حکومت پاکستان نے ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونے تک یہ درخواست منظور کرلی اور 14 نومبر 1947 کو سردار عالم خان نے گلگتکے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ سنبھال لیا۔
نومبر1947ء
3 نومبر: ریاست چترال نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ اسکندر مرزا کو وزارت دفاع کا سیکرٹری مقرر کردیا گیا۔ حکومت پاکستان نے پاکستان نیشنل گارڈ قائم کرنے کا اعلان کیا۔
4 نومبر: پاکستان کی پہلی مالیاتی کانفرنس شروع ہوگئی۔
5: نومبر: ریڈیو پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا ’’آج کشمیر کے عوام اپنی آزادی کے لئے نہیں بلکہ اپنی زندگی کے لئے جنگ آما ہیں‘‘۔ ریاست ہنزا اور ریاست نگر نے بھی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
6 نومبر: مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان وائرلیس کے ذریعے رابطہ پیدا کرلیا گیا۔
8 نومبر: آزاد کشمیر کی افواج جوسری نگر کے قریب پہنچ چکی تھیں پسپا ہوگئیں۔ بھارت نے بارہ مولا پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔
10 نومبر: چترال اور دیر کی ریاستیں بھی پاکستان میں شامل ہوگئیں۔
15 نومبر: آزادکشمیر کی فوجیں مظفرآباد میں داخل ہوگئیں، باغ، راولاکوٹ، راجوڑی، بھمیرو، بالا گولا اور میر پور میں بھارتی فوج کوہزیمت کا سامنا۔
16 نومبر: وزیراعظم لیاقت علی خان نے تجویز پیش کی بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام مسائل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔
17 نومبر: آزادکشمیر کی فوج نے میرپور پر قبضہ کرلیا۔
18 نومبر: پاکستان کے ویزراعظم لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کا مرحلہ اقوام متحدہ کی نگرانی مٰں طے کیا جائے۔
19 نومبر: آزادکشمیر کی افواج نے راجوری پر قبضہ کرلیا۔
20 نومبر: پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر بحث میں حصہ لیا۔
22 نومبر: پاکستان نے برما سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے۔
26 نومبر: حکومت آزادکشمیر نے نیا جھنڈا اختیار کرلیا۔
27 نومبر: کراچی میں پہلی کل پاکستان تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کراچی میں انجمن مفید المہاجرین قائم ہوئی۔
28 نومبر: نئی دہلی میں مسئلہ کشمیر پر سہ فرقی کانفرنس کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
30 نومبر: میاں افتخار الدین پنجاب کی صوبائی وزارت سے علیحدہ ہوگئے۔ سرکلا ڈآکن لیک سپریم کمانڈر کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔
جوبلی سینما کراچی کا افتتاح
18 ستمبر 1947ء کو قیام پاکستان کے بعد کراچی کے پہلے سینما گھر جوبلی کا افتتاح ہوا۔ اس سینما گھر میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم وامق عذرا تھی جس کے فلم ساز و ہدایت کار نذیر تھے، موسیقی اے آر قریشی نے ترتیب دی تھی، کہانی اور مکالمے منشی دل نے اور نغمات تنویر نے تحریر کئے تھے۔ اس فلم کی کاسٹ میں نذیر، سورن لتا، ایم اسماعیل اور ڈبلیو ایم خان شامل تھے۔ جوبلی سینما اب منہدم کیا جا چکا ہے اور اس کی جگہ ایک شاپنگ پلازا نے لے لی ہے۔
کشمیر پر بھارت کا حملہ
26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے حکومت بھارت سے مسلح امداد اور مداخلت کی درخواست کی جسے بھارتی حکومت نے فوری طور پر تسلیم کرلیا اور بھارتی افواج ہوائی جہاز کے ذریعے کشمیر میں اتار دی گئی۔
زاہد چودھری نے اپنی کتاب ’’پاک بھارت تنازع اور مسئلہ کشمیر کا آغاز‘‘ میں لکھا ہے۔
’’ہندوستان کی اس فوجی کارروائی کی تیاریوں کی اطلاع 26 اکتوبر کی شام کو ہی پاکستان آرمی کے لاہور ایریا ہیڈ کوارٹرز میں پہنچ گئی تھی۔ انڈین چھاتہ بردار بریگیڈ کو اس کارروائی کے لئے جو حکم دیا گیا تھا وہ پورے کا پورا لاہور میں سن لیا گیا تھا۔ یہ پیغام ڈیسائفر (DECIPHER) کرکے راولپنڈی میں پاکستان آرمییڈ کوارٹرز کو روانہ کیا گیا۔ لیکن قائم مقام برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی یہاں تک کہ قائداعظم کو بھی اطلاع نہ دی گئی حالانکہ وہ اس دن لاہور میں تھے۔ اس کے برعکس نئی دہلی میں اعلیٰ برطانوی فوجی افسر ساری رات سرگرم عمل رہے، ہوائی جہازوں کے ذریعے ہندوستانی فوجوں کی نقل و حرکت کی نگرانی خود برطانوی کمانڈر جنرل ڈڈلے رسل نے کی اور اس سلسلے میں اس قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہ کیا گیا کہ ہندوستانی فوج کے برطانوی افسر پاکستان فوج کے برطانوی افسروں کے خلاف صف آراہوں گے اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سرفرینگ میسروی، جوان دنوں لندن گیا ہوا تھا، کے بیان کے مطابق ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا بڑا منصوبہ بڑے غوروخوض کے بعد کئی ہفتے پہلے تیار کیا گیا تھا۔
چونکہ پاکستان فوج کے اعلیٰ برطانوی افسروں کو اس منصوبے کا یقیناً علم تھا اس لئے انہوں نے مجرمانہ غلفت او غداری کا مظاہرہ کیا۔ 27 اکتوبر کی شام کو جب کشمیر میں ہندوستان کے فوجی حملے کی اطلاع قائداعظم محمد علی جناح کو دی گئی تو انہوں نے فوراً پنجاب کے گورنر سرفرانسموڈی کی وساطت سے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ اس حکم کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’پہلے راولپنڈی، سرینگر روڈ کے درے پر قبضہ کرو اور پھر سرینگر، جموں روڈ پر درہ بانہال پر قبضہ کرکے ہندوستانی فوجوں کا سلسلہ مواصلات منقطع کردو۔‘‘ لیکن گریسی نے اس حکم پر عمل کرنے کی بجائے نئی دہلی میں سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آکن لیک سے ہدایات لینے کے لئے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ قائم کیا حالانکہ سپریم کمانڈر کا پاکستانی آرمی پر کوئی آپریشنل کنٹرول نہیں تھا اور ہندوستان کے برطانوی کمانڈر انچیف نے کشمیر میں ہندوستانی فوجی مداخلت کے بارے میں اس سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔
فیلڈ مارشل آکن لیک اگلے دن یعنی 28 اکتوبر کو علی الصبح لاہور پہنچا اور اس نے قائداعظم جناح سے ملاقات کرکے انہیں جنرل گریسی کو دیئے گئے حکم کو واپس لینے پر آمادہ کرلیا۔ آکن لیک کی دلیل یہ تھی کہ مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ صحیح تھا تو مہاراجہ کشمیر کے اسی قسم کے فیصلے کو غلط قرار نہیں دیاجاسکتا۔ الحاق کی کارروائی کے بعد ہندوستان کو کشمیر میں اپنی فوجیں بھیجنے کا حق حاصل ہے۔ اگر پاکستان نے اب ہندوستان کے اس ملحقہ علاقے میں کوئی فوجی کارروائی کی تو اس کے نتائج بے انتہا خطرناک ہوں گے چونکہ برطانوی فوجی حکام اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس لیے پاکستانی فوج کی حالت بہت پتلی ہوگی۔ آکن لیک نے تجویز پیش کی کہ اس تنازع کے پر امن تصفیہ کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے گورنر جنرلوں، وزرائے اعظم، مہاراجہ کشمیر اور اس کے وزیراعظم کی ایک گول میز کانفرنس ہونی چاہیے۔ جناح نے یہ تجویز منظور کرلی تو دونوں ڈومینینوں کے درمیان ہمہ گیر جنگ کا خطرہ وقتی طور پرٹل گیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More